وزارت صنعت و پیداوار نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو مطلع کیا ہے کہ ایک مانیٹرنگ کمیٹی نے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سے قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرنے پر وضاحت طلب کی ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے پی اے سی کو آٹوموبائل انڈسٹری پر بریفنگ دی، پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے وزارت صنعت سے مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور ان کی غیر معیاری کوالٹی پر نظر رکھنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق سوال کیا۔
وزارت صنعت و پیداوار نے پی اے سی کو بتایا کہ 26-2021 کے لیے آٹوموبائل پالیسی میں حکومت نے ایک مانیٹرنگ کمیٹی متعارف کرائی جس نے قیمتوں میں اضافے کے لیے آٹوموبائل مینوفیکچررز سے پہلے ہی وضاحت طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی آٹوموبائل سیکٹر سے وضاحت طلب کرے گی اور ان کے اعدادوشمار کا خام مال کی قیمتوں میں اضافے اور آپریشنل لاگت سے موازنہ کرے گی۔
اس کے علاوہ یہ کمیٹی اگلی 5 سالہ پالیسی میں متعارف کرائے گئے حفاظتی معیارات کے مطابق آٹوموبائل مینوفیکچررز کی تعمیل کا بھی جائزہ لے گی۔
وزارت صنعت و پیداوار کے ایک ورکنگ پیپر کے مطابق آٹوموٹیو سیکٹر کی پیداوار ملک کی جی ڈی پی کا 3 فیصد ہے، یہ 5 لاکھ لوگوں کو ملازمت دیتا ہے اور 24 لاکھ بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کاروں اور ہلکی کمرشل گاڑیوں (ایل سی ویز) میں 73 فیصد لوکلائزیشن، ٹریکٹرز میں 90 فیصد اور موٹر سائیکلوں میں 94 فیصد تک لوکلائزیشن حاصل کی ہے۔
انجن کے پرزے اور کچھ نازک پرزے درآمد کیے جا رہے ہیں جن کی تعمیر کے لیے بھاری اور ہائی ٹیک آلات کی ضرورت ہوتی ہے ، جب کہ دیگر پرزے مثلاً گاڑی کا ڈھانچہ، اندرونی اسٹرکچر، بیرونی اسٹرکچر، سسپنشن، بریک سسٹم وغیرہ مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
وزارت صنعت و پیداوار کے اعدادوشمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آٹوموبائل سیکٹر میں نئے آنے والوں نے 57 کروڑ 37 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں (جولائی سے جنوری) کے دوران ایک لاکھ 27 ہزار 726 کاریں مقامی طور پر تیار کی گئیں۔
اس کے علاوہ اس عرصے کے دوران 18 لاکھ 629 جیپیں اور اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑیاں، 6 لاکھ 407 ایل سی ویز، پک اپ اور وینز، 3 ہزار 760 ٹرک، 339 بسیں، 32 ہزار 585 ٹریکٹر اور 11 کروڑ 39 لاکھ 877 موٹر سائیکلیں بھی تیار کی گئیں۔
اجلاس کے دوران پی اے سی کے رکن خواجہ آصف نے الزام عائد کیا کہ ایک نئی کمپنی انڈر انوائسنگ کے ذریعے گاڑیاں درآمد کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آٹوموبائل مینوفیکچررز، سگریٹ بنانے والے اور نجی پاور پروڈیوسرز ایک مافیا بن چکے ہیں، وہ اتنے طاقتور ہیں کہ پارلیمنٹ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
پی اے سی نے وزارت صنعت سے کہا کہ وہ لگژری گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کرے۔
تاہم سیکرٹری صنعت نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اس سلسلے میں محض درآمدی ڈیوٹی ہی بڑھا سکتی ہے لیکن اسپورٹ یوٹیلیٹی وہیکلز (ایس یو ویز) کے آرڈرز ڈیوٹی میں اضافے کے باوجود بھی کم نہیں ہو رہے۔