پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز زبردست مندی دیکھی گئی اور ‘کے ایس ای 100 انڈیکس’ میں ٹریڈنگ کے دوران تقریباً ایک ہزار 500 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ٹریڈنگ کے آغاز سے ہی زبردست مندی رہی، کے ایس ای 100 انڈیکس 514 پوائنٹس کمی کے ساتھ ٹریڈنگ کے ابتدائی 10 منٹ کے دوران ہی 44 ہزار 37 پوائنٹس پر آگیا۔
مختصر وقفے کے بعد مارکیٹ میں گراوٹ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا اور دن کی کم ترین سطح 43 ہزار 50 پوائنٹس پر پہنچ گیا اور ایک ہزار 472 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
انٹر مارکیٹ سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ایکویٹی رضا جعفری نے کہا کہ کمی کے پیچھے متعدد ملکی اور عالمی عوامل کارفرما ہیں۔
انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پاکستان کے لیے خطرے کے اہم عوامل ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو گئے ہیں، چاہے یہ ملکی سیاست ہو یا جغرافیائی سیاست، اجناس کی قیمتیں، افراط زر یا حتیٰ کہ سیکورٹی، مارکیٹ بھی ان خطرات میں تیزی سے قیمت چکائے گی اور وہ ایسا کر رہی ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مشکلات آج عالمی ایکویٹی مارکیٹوں میں ہونے والے واقعات کے مطابق تھیں جہاں تیل کی قیمتیں 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں اور سونے کی قیمت 2 ہزار ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی، کیونکہ سرمایہ کار یوکرین کی جنگ کے عالمی معیشت پر اثرات کے بارے میں خوفزدہ ہو رہے ہیں۔
حصص مارکیٹ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے الفا بی ٹا کے سی ای او خرم شہزاد نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر دو دھاری تلوار ثابت ہوسکتی ہے، ہمیں تقاریر کے دوران اور خود کو کسی ملک کے ساتھ جوڑنے میں بہت محتاط رہنا چاہیے اور ملک کے معاشی مفادات کو سب سے بالاتر رکھنا چاہیے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستانی معیشت کے لیے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حوالے سے بُری خبر ہے، اس کی وجہ سے سرمایہ کار خوف و ہراس کا شکار ہو کر شیئرز فروخت کر رہے ہیں۔
ایک موقع پر اجناس کی قیمت تقریباً 18 فیصد بڑھ کر 139.13 ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ 2008 کے وسط سے نہیں دیکھی گئی تھی جبکہ امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اور اتحادی روس سے درآمدات پر پابندی لگانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
تیل پیدا کرنے والے تیسرے بڑے ملک پر پابندی کے اقدام سے طلب میں اضافے کے ساتھ ہی سپلائی کا بحران بڑھ جائے گا جبکہ خطے سے حاصل ہونے والی دیگر اشیا جیسے گندم اور دھاتوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
قیمتوں اور صارفین پر پڑنے والے اثرات کے خدشات کے پیش نظر عالمی حکومتوں نے اب تک روسی تیل کو ماسکو پر عائد اپنی وسیع پابندیوں میں شامل نہیں کیا ہے، جبکہ بینکوں کی جانب سے مالی امداد اور جہاز رانی کے اخراجات بڑھنے سے عالمی تجارت پہلے ہی سخت مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔
خام تیل کی قیمت میں اضافہ مرکزی بینکوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ وہ مہنگائی کے خلاف لڑنے کے لیے وبائی دور کی مالیاتی پالیسی کو سخت کرنا شروع کر دیتے ہیں، جو پہلے ہی امریکا میں 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی خبردار کیا تھا کہ جنگ اور روس پر پابندیاں عالمی معیشت پر ‘شدید اثر’ ڈالیں گی۔