وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک صرف سبزیاں اور گندم کی برآمدات سے ترقی نہیں کرسکتا، ملک کی ترقی کے لیے ہمیں صنعتکاری کو فروغ دینا ہوگا، مجھے حکومت میں آتے ہی صنعتوں سے متعلق پیکج کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
لاہور میں انڈسٹریل پیکج سے متعلق تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں ہمیشہ سونے سے قبل اپنا کھیلا ہوا میچ دیکھا کرتا تھا جب تک اپنی غلطیاں نہ دیکھ لوں میں سوتا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا میں حکومت میں آکر بھی یہ ہی سوچتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تھا، مجھے سب سے بڑی چیز یہ کرنی چاہیے تھی کہ صنعتوں کو جو پیکج میں نے آج دیا ہے وہ حکومت کے آغاز میں دینا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کوئی بھی ملک سبزیاں اور گندم بیچ کر ترقی نہیں کر سکتا، ملک صنعتوں کی مدد سے آگے بڑھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج سے 50 سال قبل ہمارا ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، لیکن 1973 کی جنگ کے بعد ملک کی ساری ترقی برباد ہوگئی کیونکہ ہماری حکومتوں کی سمت ملک سے مخالف تھی، دونوں بالکل مختلف سمت میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ملک تب آگے بڑھتا ہے جب ملک میں دولت پیدا ہوتی ہے، لیکن ایسی حکومتیں آئی جو دولت بنانے کے خلاف تھیں، جب حکومت کی پالیسیز منافع کے خلاف ہوجاتی ہیں اور وہ صنعتوں کو منافع نہیں کمانے دیتے تو صنعت اور سرمایہ کاری کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سرمایہ کاری شہد پر مکھیوں کے مترادف ہے، جب سرمایہ کار منافع دیکھتے ہیں وہ خود راغب ہوتے ہیں، جب ایک حکومت کی پالیسیز منافع کے خلاف بن جائیں تو ایسا ہوتا ہے جیسا پاکستان کے ساتھ ہوا کہ ملک کو جانا کہی چاہیے تھا اور ہم کہیں اور نکل گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے شروع سے ہی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ہم نے صنعتکاری پر توجہ دینی ہے، اور اس میں خاص توجہ بر آمد سے متعلق صنعت پر مرکوز کی جائے گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اوپن ایمنسٹی نہیں دینی چاہیے تھی ہمیں اسے صنعتوں میں ڈائریکٹ کرنا چاہیے تھا جو اب ہم کر رہے ہیں، کیونکہ ہماری غیر رسمی (ان فارمل) معیشت بہت بڑی ہے، تو ہمیں اسے رسمی کرنا چاہیے تھا۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معیشت کو رسمی کرنے سے ہماری صنعتی ترقی بھی ہوتی اورملک میں پیسے بھی آتے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے برآمدات پر کبھی توجہ ہی نہیں دی جس کی وجہ سے ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہوجاتی ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنے گزشتہ خطاب میں دیکھائے گئے گراف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روانڈا، ویتنام، بنگلادیش، بھارت، چین برآمدات میں تیزی سے اوپر جارہے ہیں اور سب سے نیچے پاکستان ہیں کیونکہ کئی سالوں سے ہماری برآمدات بڑھی ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ملک کی برآمدات نہیں بڑے گی تو ڈالر کی قیمت ہر روز بڑھتی جائے گی، جب معیشت ترقی کرتی تھی، ہمیں ڈالر کی کمی ہوتی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑتا تھا، اس حوالے پاکستان کی کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس پالیسی میں دو پہلو ہیں، وہ پیسہ جو ملک میں پلاٹس کی صورت میں موجود ہے اسے صنعت کی طرف کردیا ہے، دوسرا اسمال اور میڈیم انڈسٹری کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں ملک کی بنیاد ہوتی ہیں، اس پر اتنی مشکلات ڈال دی گئیں تھی کہ وہ ترقی ہی نہیں کرسکتی تھیں۔
عمران خان نے بتایا کہ ان کی حکومت نے چھوٹی اور متوسط طبقے کی صنعتوں کے لیے قواعد میں آسانی پیدا کرتے ہوئے رکاوٹ بننے والے قواعد کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ ہم نے ان صنعتوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو رکی ہوئی ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کر ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ مجھے سب سے زیادہ ہے، مجھے احساس ہوا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے ان کے لیے مشکل قواعد بنائے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے متعلق ہماری حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی فیصلے کیے ہیں، اب ہم انہیں دعوت دے رہے ہیں کہ جب وہ پاکستان میں کام کریں گے تو انہیں 5 سال ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کی کسی صنعت کے ساتھ جوائنٹ وینچر کریں گے دونوں صنعتوں کو 5 سال ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ باہر سے سرمایہ پاکستان کی جانب راغب کریں۔
ان کاکہنا تھا کہ جیسے ہی بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کا ہم پر اعتماد بحال ہوگا وہ پاکستان میں سرمایہ کریں گے اور پاکستان ترقی کرے گا، کیونکہ ان کے پاس سرمایہ بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے، انہیں صرف اعتماد چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت نے ترقی کرنے کے لیے اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا، ہمارےملک کا سب سے بڑا اثاثہ اوور سیز پاکستانی ہیں، تقریباً 90 لاکھ پاکستانی ملک سے باہر مقیم ہیں، اس لیے ہم نے اپنے انڈسٹریل پیکج میں اوور سیز پاکستانیوں کے لیے اقدام اٹھائے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہماری ترقی بہت کم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی آئی ٹی کمپنیز اور فری لانسرز کی مدد ہی نہیں کی جبکہ آئی ٹی کی صنعت کی ضروریات مختلف ہے، پہلی بار ہماری حکومت نے آئی پروفیشنلز اور فری لانسرز کو مراعات دیں، ہم نے ان کی مزید سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ ایک آزاد، غیرت مند اور خودمختار خارجہ پالیسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جو ملک اپنے لوگوں کے خلاف خارجہ پالیسی بناتا ہے اس کی دنیا کبھی عزت نہیں کرتی، ہم نے کبھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خود اپنے آپ کو ذلیل کیا، جب روس افغانستان میں لڑ رہا تھا تو ہم نے جہاد کے نام پر پیسے لیے جب امریکا آیا تو جہادی دہشت گردی بن گئی، اپنے لوگوں کو کو قتل کروایا، یہ صرف اس لیے ہوا کہ ہم آسان راستہ اختیار کیا اور شارٹ کٹ لیے، زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہواتا اگر آپ اوپر جانا چاہتے ہیں تو محنت کریں۔
وزیر اعظم نے کہاکہ ہم نے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ہے ہم نے چھوٹے اور درمیانے طبقے کی صنعتوں کو ترقی دینی ہے، انہیں مراعات دینے ہیں اور ہمارا سب سے بڑا اثاثہ یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سب سے زیادہ سہولیات فراہم کرنی ہیں۔