اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2021 سے گزشتہ 12 مہینوں کے دوران بینک کے ذخائر 17 فیصد اضافے کے بعد 19 کھرب 90 ارب روپے پر پہنچ گئے ہیں۔
بینکرز نے اسے پُر کشش قرار دیا ہے کیونکہ ذخائر میں اضافے کا مقصد ہے کہ بینک نے زیادہ کمایا ہے۔
بینکوں کی جانب سے جاری کردہ سال 2021 کے کلینڈر کی بیلنس شیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اچھا منافع حاصل ہوا ہے، اس دوران لیکویڈیٹی میں اضافے نے بھی نجی شعبہ جات سے تعاون کیا ہے، اس دوران ریکارڈ رقم قرض کی مد میں لیے گئے۔
تاہم، بڑھتے ہوئے ذخائر نے حکومت کے مالیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بینکوں کی مدد کی ہے، جس سے وہ رسک فری منافع حاصل کر سکتے ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک سرمایہ کاری 26 فیصد اضافے کے بعد 14 کھرب 40 ارب روپے ہوگئی ہے جو جنوری 2021 میں 11 کھرب 40 ارب تھی۔
خیال رہے حکومت مقامی قرضوں کے لیے مکمل طور پر بینکوں پر انحصار کرتی ہے۔
حال ہی میں حکومت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے انشورنس اور کور پوریٹ جیسے دیگر شعبہ جات قرضے لینا شروع کیے ہیں، حکومت کو لیکویڈیٹی کے مسائل کے در پیش ہیں تاہم آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باعث 2018 سے مرکزی بینک سے قرضہ نہیں لیا گیا۔
بینکاری کے نظام میں ایڈوانس 17.4 فیصد اضافہ کے بعد 99 کھرب 44 ارب روپے پر پہنچ چکی ہے جو جنوری 2021 میں 84 کھرب 67 ارب روپے تھی، جو نجی شعبے سے بڑے پیمانے پر قرض لینے کی عکاسی کرتا ہے۔
حکومت کا ماننا ہے کہ نجی شعبہ جات سے بڑے پیمانے پر قرضے دینا زیادہ معاشی سرگرمیوں کی عکاسی کرتا ہے جبکہ انہوں نے مالی سال 2022 میں وہ نمو کی شرح 5 فیصد مقرر کی ہے۔
ایڈوانس ٹو ڈپازٹ کی شرح میں بہت کم اضافہ دیکھا گیا ہے جو جنوری 2021 کے 49.6 فیصد کے مقابلے میں رواں سال 49.8 فیصد تک ہوگئی ہے۔
تاہم، انوسٹمنٹ ٹو ڈپازٹ کا تناسب 72.3 فیصد اضافے کے بعد 546 بیسز پوائنٹ پر جا پہنچا ہے، زیر جائزہ دورانیے جنوری 2021 میں اس کی شرح 66.8 تھی۔
بینکاری بہترین منافع بخش صنعتوں میں سے جس نے معیشت کو مستحکم کرنے میں اس وقت بھی کامیابی حاصل کی جب تمام زیادہ شعبے کمزور پڑ چکے تھے۔