قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری دے دی

قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری دے دی


قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اپوزیشن اراکین کی تجویز کردہ چند تبدیلیوں کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ترمیمی بل 2021 کی منظوری دے دی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم این اے فیض اللہ کی سربراہی میں کمیٹی کو وزیر خزانہ شوکت ترین نے یقین دلایا کہ اس بل میں مرکزی بینک کی مکمل خود مختاری کا تصور نہیں بلکہ صرف اس کی آزادی کو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کرے گی جو مرکزی بینک اور اس کی اعلیٰ انتظامیہ کو کنٹرول کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی وقت حکومت نے محسوس کیا کہ مالیاتی شعبے کا ریگولیٹر مکمل اختیارات کا لطف اٹھا رہا ہے تو اس کے پاس پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ساتھ مجوزہ قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو سینئر مینجمنٹ کے تقرر یا برطرف کرنے کا مکمل اختیار نہیں ہوگا جبکہ حکومت کے پاس ایسے فیصلوں کا جائزہ لینے کے اختیارات ہوں گے۔

تاہم حزب اختلاف کے ارکان کے اصرار پر کمیٹی نے بل میں تین بڑی تبدیلیوں کی سفارش کی: اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے پر دوہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر پر پابندی، کسی ایسے ادارے میں گورنر کی ملازمت پر دو سال کی پابندی جس کے ساتھ اس نے بات چیت کی ہو اور گورنر اور بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانا۔

قائمہ کمیٹی کی جانب سے بل کی منظوری وزارت خزانہ کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے بعد ہوئی کہ اس نے ‘عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے چھٹے جائزے کی منظوری کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کو جنوری کے آخر تک دوبارہ شیڈول کرنے کی باضابطہ درخواست کردی ہے’۔

ایک بیان میں وزارت نے کہا کہ آئی ایم ایف کو درکار دونوں بلز اسمبلی میں پیش کردیے گئے ہیں اور ‘جیسے ہی قانون سازی کا عمل مکمل ہوگا، آئی ایم ایف بورڈ منظوری کے لیے اس پر غور کرے گا’۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی طریقوں کے مطابق اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کو بڑھا رہی ہے البتہ اسے مکمل طور پر خود مختار نہیں ہونے دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ حکومت کا مرکزی بینک کے چلانے میں کوئی کردار نہیں ہوگا یا وہ معیشت پر کنٹرول کھو دے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے بعد بھی تمام بڑے فیصلے وزیر خزانہ اور گورنر کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایس بی پی بورڈ کے ممبران کا انتخاب اور تقرر کرے گی جو بینک کو کنٹرول کریں گے اور حکومت کے مؤقف کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں حکومت اسٹیٹ بینک کے پروں کو کاٹ سکتی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مجوزہ قانون کے تحت آئی ایم ایف نے پاکستان سے مرکزی بینک سے حکومتی کو قرض لینے سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا تاہم گزشتہ حکومت کا قرض تقریباً 70 کھرب روپے تھا۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے پاس بیرون ملک کی شہریت یا مستقل رہائش کی حیثیت نہیں ہے اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے پر آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ اس وقت ایسا کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض ایسے افراد نے بھی اسٹیٹ بینک کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں جب وہ بین الاقوامی قرض دہندہ اداروں میں اپنی ملازمتوں سے چھٹی پر تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مجوزہ قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کے بورڈ کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ مرکزی بینک کتنا منافع برقرار رکھ سکتا ہے اور باقی وفاقی حکومت کو کتنا دے سکتا ہے۔

نیز ڈپٹی گورنرز کا تقرر بھی حکومت کے دائرہ کار میں رہے گا، گورنر کے عہدے کو پانچ سال کی میعاد دینا انہیں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل بنانا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں