آسٹریلیا انسانی وسائل کے معیار کو بلند کرنے کے لیے پاکستان کو تکنیکی اور زرعی تربیت فراہم کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آسٹریلیا کے تجارتی کمشنر جان کیواناگون نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل کو اپ گریڈ کرنے سے زراعت کے شعبے میں ترقی آئی گے۔
آسٹریلیا تجارتی کمشنر نے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے کے تعاون سے دونوں ممالک کے درمیان زرعی ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے پاکستان کی زرعی معیشت میں تیزی آسکتی ہے۔
سید فخر امام نے ملک کے تحقیقی اداروں کو معیاری انسانی وسائل کی فراہمی کے ذریعے زرعی تحقیق کو بڑھانے میں مدد کرنے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے تجارتی کمشنر کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کو زرعی معیشت کے حوالے سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے، خاص طور پر دو طرفہ تجارت میں بہتری اور زرعی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے۔
انکا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی برآمدات میں بہت کم اضافہ ہوا ہے اور اگر اس شعبے پر مناسب توجہ دی جائے تو برآمدات کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔
سید فخر امام کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان آسٹریلیا کو پھلوں، سبزیوں اور چاول کی برآمدات بڑھاتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت نئی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی نیشنل پلانٹ پروٹیکشن آرگنائزیشن کے سخت ضابطوں کی وجہ سے پاکستان سے آسٹریلیا میں آم اور لیموں کے پھلوں کی ایکسپورٹ محدود تھی۔
اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کو آم کی مجموعی برآمد 2013 میں 2 ٹن سے بڑھ کر 2021 میں 75 ٹن ہو گئی، صرف ایک سال میں پھل کی برآمد 350,000 ٹن سے بڑھ کر تقریباً 460,000 ٹن تک پہنچ گئی۔
اس حوالے سے سید فخر امام کا کہنا تھا کہ یہ تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
سید فخر امام نے آسٹریلیوی تجارتی کمشنر سے کہا کہ اسی عرصے میں آم کی برآمد 110,000 ٹن سے بڑھ کر 142,000 ٹن تک پہنچ گئی، پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں جیسے آم، لیموں، سیب اور چیری بڑی مقدار میں برآمد ہوتی ہے۔
وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ٹیکنالوجی، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں کی ترقی کو ترجیح دی ہے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان تکنیکی تبادلے پاکستان کے زرعی شعبے کو فروغ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے زرعی ٹیکنالوجی کو درآمد کرنے اور زراعت کے شعبے میں انسانی وسائل کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔