اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر، ان کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین اور تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) سمیت 6 ملازمین کی موجودگی میں نور مقدم قتل کیس کی تاریخ مقرر کی۔
دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت سے کچھ کہنے کی استدعا کی۔
ظاہر جعفر نے کہا کہ میں آگے آکر روسٹر پر بات کرنا چاہتا ہوں، میں معافی مانگتا ہوں۔
جس پر عدالت نے ریماکس دیے کہ ابھی آپ کی ضرورت نہیں ہے ٹرائل میں آپ کو بھی سنیں گے۔
جج عطار ربانی نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ملزمان کو واپس بخشی خانہ لے جائیں۔
دوران سماعت عدالت نے ملزمان کی ڈیجیٹل ثبوت کی کاپی مہیا کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر نے جج سے آزادانہ طور پر کچھ کہنے کا موقع فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ 90 دن سے زیر حراست ہوں عدالت کا اگلا پلان کیا ہے۔
جس پر جج نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کا پلان نہیں ہوتا بلکہ عدالتی کارروائی ہوتی ہے، آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں، جو بھی ہو گا وہ آپ کو آپ کا وکیل بتائے گا۔
یاد رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا تھا کہ مدعی مقدمہ و مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کی روشنی میں ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام محرکات کے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔
پولیس نے عدالت سے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
اسلام آباد کی عدالت نے 27 جولائی کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار والدین سمیت 4 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔