طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں، عمران خان

طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں، عمران خان


وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران طالبان خطے میں امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں۔

بین الاقوامی جریدے کو طویل انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کو گزشتہ 20 سالوں سے امریکا اور نیٹو کے تعاون سے چلنے والے گورننس کی منتقلی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے 40 سالوں میں پہلی بار پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اس لیے ایک امید ہے کہ پورے افغانستان میں سکیورٹی قائم ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک پرامن افغانستان پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا اور تجارت اور ترقیاتی منصوبوں کے امکانات کھولے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ‘تاہم کووڈ 19، تنازعات اور سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے افغانستان کو انسانی بحران کا سامنا ہے، اس کو ترجیحی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ ہمیں کابل میں حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بے اثر کیا جا سکے’۔

‘امریکا افغانستان میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے’

امریکی کے افغانستان کے حوالے سے اقدام سے اس کی ساکھ اور اثر و رسوخ کے متاثر ہونے کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنی ذمہ داری، مہنگی ترین فوجی مداخلت کو ختم کر دیا ہے جو کہ امریکی صدر نے خود تسلیم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان اور امریکا دونوں کو افغانستان سے دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ہمیں اس ملک میں انسانی بحران سے نمٹنے اور اس کی معاشی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں مدد کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ‘یقیناً امریکا کا کابل سے افراتفری میں انخلا کی وجہ سے فوری طور پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، امریکا نے افغانستان سے اپنی مرضی سے انخلا کیا ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ امریکی انخلا طویل المدتی میں عالمی سطح پر امریکی ساکھ کو ختم کرے گا’۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘جہاں تک چین کا تعلق ہے اگر چین افغانستان کو معاشی مدد فراہم کرتا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ افغانی اسے قبول کر لیں گے، طالبان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شامل ہونے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے امکانات کا خیر مقدم کیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘تاہم امریکا بھی افغانستان میں انسانی امداد فراہم کر کے افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور افغانستان سے دہشت گردی پر قابو پانے میں تعاون کر کے افغانستان میں ایک اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ امریکا افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے’۔

‘نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فیصلے کو ترجیح دیں گے’

پاکستان کا ماضی کی طرح نئے اسلامی امارات افغانستان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ایک ‘قائم مقام حکومت’ قائم کر رکھی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں حکومت کے مزید مستقل ڈھانچے کا اعلان کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ افغانستان میں ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ مشاورت کرے تاکہ پڑوسی ملک میں معاشی اور انسانی بحران اور دہشت گردی کی بحالی کو روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایک بار جب کابل میں حکومت پورے ملک پر کنٹرول قائم کر لے گی تو وہ قانونی طور پر تسلیم کے لیے اہل ہو جائے گی تاہم پاکستان افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کے ساتھ مل کر نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی فیصلے تک پہنچنے کو ترجیح دے گا’۔

‘افغان حکام کے ساتھ ملکر دہشت گردی کو افغانستان سے روکنے کے لیے کام کریں گے’

عسکریت پسند اور علیحدگی پسند گروہ کا دیگر ممالک کے خلاف حملوں کی سازش کے حوالے سے بین الاقوامی برادری تشویش سے نمٹنے کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘درحقیقت ایسے دہشت گرد گروہوں کی کثرت ہے جو افغانستان کے تنازع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک میں موجود ہیں، پاکستان افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش میں مبتلا ہے خاص طور پر ٹی ٹی پی کے بارے میں جس نے بعض دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور مدد سے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہزاروں حملے کیے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹی ٹی پی پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر زیادہ تر حملوں کا ذمہ دار بھی رہا ہے، شاید ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کی مدد سے، پاکستان افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردی کو افغانستان سے روکنے کے لیے کام کرے گا’۔

‘بھارت کے لیے امریکی فوجی مدد، چین کو روکنے کے لیے ہے’

امریکہ کے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات پر زیادہ توجہ، اس کی سیکیورٹی ڈائیلاگ میں رکنیت اور کشمیر میں موجود کشیدگی کے پیش نظر کیا یہ پاکستان کی تشویش کے بارے میں سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سے دہشت گردوں کے خطرات کو بے اثر کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کو فروغ دینا چاہتا ہے، ہم اس کوشش میں امریکا سمیت بین الاقوامی برادری سے تعاون کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کے لیے امریکی فوجی مدد، چین کو روکنے کے لیے ہے بشمول نام نہاد سیکیورٹی ڈائیلاگ، اس حکمت عملی کی ساکھ پر پاکستان کے اپنے خیالات ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے خیال میں بھارت کبھی بھی چین کا مقابلہ نہیں کرے گا خاص طور پر امریکی اسٹریٹجک مقاصد کی تکمیل کے لیے، خود کو اتنے بڑے پیمانے پر مسلح کرنے میں بھارت کا مقصد جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرنا اور خاص طور پر پاکستان کو دھمکانا اور مجبور کرنا ہے’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘تمام بھارتی فوجی صلاحیتوں میں سے 70 فیصد پاکستان کے خلاف تعینات ہیں، چین کے خلاف نہیں، اس لیے پاکستان کو بھارت کو جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بارے میں جائز تحفظات ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے تنازع کے امکانات بڑھنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ بھارت اور پاکستان دونوں کو سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری سے ہٹا دے گا’۔



اپنا تبصرہ لکھیں