امریکی آفس آف پرسنل مینجمنٹ کے ایک ترجمان نے بدھ کی رات تصدیق کی کہ تقریباً 75,000 وفاقی ملازمین نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے مؤخرہ خریداری پروگرام (Deferred Buyout Program) کو قبول کر لیا ہے۔
یہ اقدام ٹرمپ کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ 2.3 ملین کے سولین ورک فورس میں کمی کرنا چاہتے ہیں، جسے وہ غیر مؤثر اور اپنے خلاف متعصب قرار دیتے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے حکومتی اداروں کو وسیع پیمانے پر ملازمتوں میں کٹوتیوں کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، اور کئی ادارے پہلے ہی ایسے ملازمین کو برطرف کر رہے ہیں جو مکمل ملازمت کے تحفظ کے حامل نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق، کچھ اداروں میں عملے میں 70 فیصد تک کمی کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
ملازمین کی یونینز نے اپنے ارکان کو اس خریداری پروگرام کو قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ ٹرمپ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
یہ پیشکش ملازمین کو اکتوبر تک بغیر کام کیے مکمل تنخواہ اور مراعات دینے کی یقین دہانی کراتی ہے، لیکن اس کی کوئی حتمی ضمانت نہیں۔ موجودہ اخراجاتی قوانین 14 مارچ کو ختم ہو رہے ہیں، اور اس کے بعد تنخواہوں کی ادائیگی یقینی نہیں ہے۔
ٹرمپ نے ارب پتی ایلون مسک کو نئی قائم کردہ “ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی” کا سربراہ مقرر کیا ہے، جو ادائیگیوں اور ملازمین کے ریکارڈ کی جانچ کر کے گزشتہ سال کے 6.75 ٹریلین ڈالر کے وفاقی بجٹ میں سے 1 ٹریلین ڈالر کی کٹوتی کے لیے کام کر رہا ہے، حالانکہ سول ملازمین کی تنخواہیں اس بجٹ کا صرف 5 فیصد حصہ بنتی ہیں۔