کشیدگی میں اضافہ یا کمزور نظر آنا، اسرائیلی حملے کے بعد ایران کو ایک بار پھر مشکل صورتحال کا سامنا


یران پر اسرائیلی حملے نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کو مزید پھیلا دیا ہے۔ اس جنگ میں مزید کشیدگی بڑھانے یا کم کرنے کا دارو مدار ایران کے رہبراعلیٰ اور ان کے مشیروں کے فیصلوں پر ہوگا۔

انھیں اپنے پاس موجود تمام مشکل آپشنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایک طرف وہ اسرائیل پر ایک مرتبہ پھر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرسکتے ہیں اور اس صورت میں اسرائیل پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ وہ ایک بار پھر جوابی حملہ کرے گا۔

دوسری جانب یہ فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر تباہ کُن حملے نہ کریں۔ لیکن اگر ایران جوابی کارروائی نہیں کرتا ہے تو اسے کمزرو نظر آنے کا خطرہ لاحق ہوگا اور اسے اس طور پر دیکھا جائے گا کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ نواز اسرائیل کی عسکری طاقت اور سیاسی عزم کے سامنے گھبرا رہا ہے۔

آخر میں رہبرِ اعلیٰ اور ان کے مشیر وہی فیصلہ کریں گے جس سے ان کے مطابق اسلامی حکومت کی بقا خطرے میں نہ پڑے۔

خالی دھمکیاں؟

ایرانی میڈیا پر اسرائیلی حملے سے کچھ گھنٹوں قبل اور اس کے بعد آنے والی اطلاعات میں مزاحمت کا رنگ واضح تھا جنھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے اسرائیل کو جواب دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

ان خبروں میں استعمال ہونے والی زبان اسرائیلی زبان سے مماثلت رکھتی ہے، جیسے کہ ’کسی بھی حملے کے خلاف دفاع کا حق رکھنا‘ وغیرہ۔

لیکن اس وقت صورتحال اتنی کشیدہ ہے کہ شاید ایران اسرائیل کے خلاف اپنی دھمکیاں واپس لے لے۔

کم از کم برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیئر سٹامر کو تو یہی امید ہے جو کہ امریکہ کی طرح سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف کارروائی اپنے دفاع میں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح ہے کہ اسرائیل کو ایرانی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ خطے میں مزید کشیدگی بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے اور تمام فریقین سے ضبط اور تحمل دکھانے کی درخواست کرنی چاہیے۔ ایران کو (اسرائیل کو) جواب نہیں دینا چاہیے۔‘

یکم اکتوبر کو اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد ایران کے اپنے بیانات کافی حد تک ایک جیسے نظر آئے ہیں۔ ایک ہفتے قبل ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ترکی کے این ٹی وی نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ ’ایران پر کوئی بھی حملہ سُرخ لکیر کو عبور کرنا تصور کیا جائے گا اور ایسے کسی بھی حملے کا جواب دیا جائے گا۔‘

سنیچر کو اسرائیلی حملوں سے کچھ گھنٹوں پہلے ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا تھا کہ ’اسرائیلی ریاست کی ایران کے خلاف جارحیت کا جواب پوری قوت سے دیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کہنا ’انتہائی گمراہ کُن اور بے بنیاد‘ ہے کہ ایران کسی محدود اسرائیلی حملے کا جواب نہیں دے گا۔‘

جب ایران پر حملے کے بعد اسرائیلی طیارہ اپنے اڈے کی طرف واپس جا رہا تھا تو ایران کی وزارتِ خارجہ نے ’اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51‘ کے مطابق اپنے دفاع کا حق مانگ لیا۔

اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران غیرملکی جارحانہ کارروائی کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں