اسلام آباد: اتحادی حکومت مالی سال23-2022 میں تقریباً 300 ارب روپے اضافی ریونیو کے حصول کے لیے آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکس متعارف کرانے پر غور کر رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس سے متعلق حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کو اگلے چند دنوں تک ٹیکس وصول کرنے والے شعبوں اور سیکٹرز کو حتمی شکل دینے کا کام سونپا ہے۔
حکومت کی طرف تعطل کا شکار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام (آئی ایم ایف) کو بحال کرنے کے لیے نئے ٹیکس اقدامات میں ‘لگژری انکم ٹیکس’ کی تجویز بھی شامل ہے جو کہ اگر ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کی منظوری دی گئی تو اس کی ایک نقل ہو گی، جس میں پوش علاقوں میں بڑے گھر بھی شامل ہیں جبکہ لگژری گاڑیوں کے مالکان کو بھی اس ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف براہ راست ٹیکس لگانے پر توجہ مرکوز کرنے لیے بڑے پیمانے پر ہدایات دی گئی ہیں جس میں خاص طور پر امیر طبقے کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا شامل ہے۔
حکومت کی طرف سے اس تجویز میں اس کو کرایہ کی آمدنی تک توسیع دینا اور اس پر مؤثر طریقے سے ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔
بجٹ کے دستاویزات میں لگژری اشیا پر ٹیکس کا کوئی عنوان نہیں ہوگا لیکن اس کا مقصد امیر طبقے پر ٹیکس عائد کرنے کا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ایسے شعبوں یا مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے گریز کر رہی ہے جس سے غریب طبقہ متاثر ہو۔
ایف بی آر کی ٹیکس تجاویز اس اصول پر قائم ہیں کہ بجٹ تیار کرنے والوں کو وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق امیر لوگوں کی تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے۔
تاہم، سرمایہ کاری کو راغب اور کاروبار میں سہولیات کے لیے مراعات کی پیشکش کی جائے گی۔
حکومت کی طرف سے بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے 19 مئی کو دو ماہ کی مدت کے لیے تیار کی جانے والی ممنوعہ اشیا کی فہرست میں شمولیت کے لیے دیگر لگژری آئٹمز کی نشاندہی پر مزید کام شروع کر دیا گیا ہے۔
تاہم، وزارت خزانہ کی طرف سے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ درآمد کی جانے والے ممنوع لگژری اشیا کی فہرست میں مزید اضافہ کیا جائے گا یا نہیں لیکن چیمبرز اور صنعتی نمائندگان پہلے ہی حکومت کے ایسے اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ٹیکس کے نئے اقدامات صرف 300 ارب روپے کے لگ بھگ ہوں گے جو کہ مجموعی گھریلو پیداوار کا 0.4 فیصد ہے۔
وزارت خزانہ کے عہدیدار نے کہا کہ میں کوئی مخصوص چیز نہیں بتا سکتا لیکن حکومت آئی ایم ایف کے اس مطالبے کی مخالفت کر رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھایا جائے لیکن ہم نے پہلے ہی اس مطالبے کی مخالفت کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگلے بجٹ کے اعلان سے قبل آئی ایم ایف حکام کے ساتھ گزشتہ اجلاس میں اس مطالبے کی مخالفت کی گئی تھی۔
گزشتہ چند برسوں میں ریئل اسٹیٹ کے کام میں تیزی اور اربوں روپے مالیت کی سرمایہ کاری بالخصوص سابق حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے متعارف کی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے اس شعبے پر مالی سال 2023 کے بجٹ میں ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مکان کا تجویز کردہ سائز یا تو 1 ہزار یا 15 سو مربع گز سے زیادہ ہوگا، لیکن گھر کا رقبہ زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کے لیے وفاقی کابینہ کی حتمی منظوری درکار ہوگی۔
اسی طرح لگژری گاڑیوں کے انجن کی گنجائش سے متعلق بھی آئندہ ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا اور لگژری ٹیکس کے دائرے میں آنے والی مزید اشیا پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ ٹیکس کے مقصد سے جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ انہیں مارکیٹ ریٹ کے برابر لایا جا سکے۔
ایک اور تجویز یہ بھی آئی ہے کہ رئیل اسٹیٹ سوسائٹیز کے لیے اس بات پر زور دیا جائے کہ مکان کے خریداروں سے حاصل کیا جانے والا ریئل ٹائم ودہولڈ ٹیکس ایف بی آر میں جمع کرایا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پراپرٹی کے تخمینے کے لیے ڈپٹی کلیکٹر کے نرخ اب بھی بہت کم ہیں اس لیے صوبوں سے کہا جائے گا کہ وہ پورے پاکستان میں ڈپٹی کلیکٹر کے نرخوں میں اضافہ کریں، ہمیں اس شعبے سے بہت زیادہ آمدنی کی توقع ہے۔
ذائع کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے بھی 44 اضلاع میں ’ویلیوایشن ٹیبل‘ میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اسے جائیداد کے لین دین کے قریب لایا جا سکے۔ تاہم، خاص طور پر اسلام آباد میں ان چیزوں میں مزید متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے زیر غور تجاویز میں کسٹمز کی جانب سے موجودہ اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ٹیکس میں اضافہ کرنا بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نئی اشیا کی نشاندہی کرنے کی تجویز بھی شامل ہے جو ریگولیٹری ڈیوٹی کے تابع ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق اس قدم کا مقصد ریونیو میں اضافہ اور درآمدی بل میں کمی لانا ہے۔
ذرائع کا مزید کہان ہے کہ محکمہ کسٹمز اور وزارت تجارت درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے نئی لگژری اشیا کی نشاندہی پر بھی کام کر رہے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے تیار کردہ ممنوعہ اشیا کی فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم، یہ تجویز ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے جس کو اعلیٰ حکام کی منظوری درکار ہے۔
واضح رہے کہ 19 مئی کو حکومت نے تقریباً 800 برآمدی اشیا پر پابندی عائد کی تھی، جس سے سالانہ صرف 300 ملین ڈالر کی بچت کی توقع ہے۔
تاہم، صنعت کاروں اور ایف بی آر کے کچھ عہدیداروں نے حکومت کے ایسے اقدام کی مخالفت کی ہے کیوںکہ اس اقدام سے مقامی صنعتکاروں کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
حکومت کی طرف سے پابندی کے زمرے میں آنے والی اشیا کی فہرست میں شامل صنعتوں کے لیے خام مال کی اشیا بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے مقامی صنعتکاروں کو مشکلات درپیش ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام کے باوجود بھی ممنوعہ اشیا مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔
وزارت تجارت نے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ خام مال پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی لیکن صنعتکاروں کا دعویٰ ہے کہ خام مال پر پابندی کہ وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور تجویز بھی پیش کی گئی ہے جس میں چند ملین ڈالر کی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے بجائے ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی کھپت کو کم کرنے کے لیے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ ایک منصوبہ تیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے کیونکہ پابندی سے سپلائی چین میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ تیل کی مصنوعات کا درآمدی بل 30 جون کے آخر تک 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔