2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین نہیں، اسٹیٹ بینک کی وضاحت


اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے ان خبروں کے حوالے سے ایک وضاحت جاری کردی جس میں کہا گیا تھا کہ 2020 میں ملک میں افراط زر (مہنگائی) کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ دیکھنے میں آئی۔

اسٹیٹ بینک نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہمارے افراط زر کے مانیٹر کے ایک چارٹ سے غلط نتائج اخذ کیےگئے، اس سے پاکستان کی افراط زر کا موازنہ کچھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے‘۔

مرکزی بینک نے واضح کیا کہ ’اگرچہ مالی سال 2020 میں پاکستان میں اب تک افراط زر کی شرح نسبتاً بلند رہی لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جنوری کے بعد سے پاکستان میں افراط زر کی شرح دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے کم ہوئی‘۔

واضح رہے کہ 7 جون کو ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں اسٹیٹ بینک کے افراط زر مانیٹر کے اپریل کے چارٹ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں نہ صرف ترقی یافتہ معیشتوں بلکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں بھی سب سے زیادہ افراط زر ریکارڈ کی گئی‘۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ جنوری میں افرط زر 14.6 ریکارڈ کی گئی جو 12 برسوں میں سب سے زیادہ تھی۔

قیمتوں میں اضافے کے ردعمل میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود 13.25 کردیا تھا۔

اس میں مزید کہا تھا کہ کورونا وائرس سے طلب میں کمی کی وجہ سے افراط زر کم ہوا جس سے اسٹیٹ بینک نے صرف 3 ماہ کے اندر سود کی شرح 5.25 تک کم کردی۔

ایس بی پی کے افراط زر مانیٹر کے تفصیلی گراف سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ ترقی پذیر معیشتیں جیسے چین، تھائی لینڈ، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رواں مالی سال کے جولائی سے لے کر مئی تک کے عرصے میں مہنگائی اسٹیٹ بینک کے 10.94 تا 11 فیصد کے تخمینے سے بھی کم رہی جس میں جون کے دوران مزید کمی کا امکان ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں