نیا پاکستان… کیا واقعی تبدیلی آگئ ہے…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
پاکستان میں بے انصافی کی آگ، رشوت ستانی کا زہر، جھوٹ مکرو فریب کے ساتھ جینا، مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے باوجودبیروزگاری، نوجوان پر بہتر مستقبل کیلئے والدین اور معاشرتی دبائو ،نوجوانوں کی خوابوں کے برعکس زندگی ،یہی وہ مسائل اور عوامل تھے جس کے سبب قوم پریشان ہے اور ان سب مسائل کے حل کا کورڈ ورڈ”تبدیلی”اور”نئے پاکستان” کا وہ پرکشش نعرہ تھا جس کی بنیاد پر عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو بھر پور طریقے سے ووٹ کیا ،عمران خان کی 21سالوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد انہوں نے قوم کے ذہن کو تبدیلی کے اسہی کورڈ ورڈ سے کھولا اس نعرہ کی کشش نے نے کئی موروثی سیاستدانوں کا کاروباربھی ٹھپ کر کے رکھ دیا، گو کہ عمران خان جب سیاست کی دوڑ میں شامل ہوئے تو وہ انتہائی سچائی کے ساتھ کھری کھری سنا دیتے تھے ، یہ انداز بھی نوجوانوں کے دل میں گھر کرتا چلا گیا، جیو پر کیپٹل ٹاک کے ذریعہ انہوں نے متعد پرگراموں میں شرکت کی اسوقت اور اب بھی روایتی سیاستدان اس کو سچا لیڈر ماننے کیلئے تیار نہ تھے،کوئی اس کو دھوکے باز کہتا تو کوئی اس کو یہودیوں کا جاسوس قرار دیتا، اس کو بہروپیے جیسے الفاظوں سے بھی نوازا گیا ،کبھی طالبان کا ساتھی بتایا گیا تو کبھی مغرب کا دلدادہ قرار دیا گیا، انتخابات سے قبل بھی ان کی سابقہ اہلیہ نے کتاب کے ذریعے جو کچھ لکھا اور بیان کیا وہ انتہائی شرمناک تھا اور پی ٹی آئی کارکنوں کیلئے انتہائی صدمے کا باعث تھا مگر اس کے پیروکار باوجود تمام برائیوں کے اس کو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان دیکھنا چاہتے تھے،انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی حالانکہ انتخابات سے قبل دوسری پارٹیوں کے مفاد پرست عناصروں نے عمران کے ہاتھ پر جوق در جوق بیعت کرنا بھی شروع کر دی،مخالفین طعنہ دینے لگے کہ یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں پرانے لوٹوں سے اپنی پارٹی کو بھرا جا رہا ہے، پرانے کارکن بھی اس سے دلبرداشتہ ہوئے، لیکن بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ آنے والے لوگ غرض مند مکھیوں کی مانند ہیں، جو گڑ کی ڈلی سے چمٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عمران ایسا نہیں جو ان آنے والے مفاد پرست لوگوں کے جھانسے میں آ سکے، اسطرح نوجوانوں کا عشق عمران کے ساتھ دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا، کیونکہ عمران نوجوانوں کے زمانے کو سچ ماننے کیلئے ان کا ہم عمر بن گیا تھا، اس نے ان نوجوانوں کے بکھرے خوابوں کی گٹھڑی کوسر پر اٹھایا اور وہ تمام سیڑھیاں عبور کرتا چلا گیا جو کہ دوسرے کئی پرانے سیاستدانوں کیلئے ایک خواب تھا مگر نوجوان اس کے دست وبازو بن گئے وہ نوجوان جو کہ افسانوی توقعات کے سحر میں مبتلا ہو چکے تھے ان پر نہ ریحام کی کتا ب نے اثر کیا اور نہ ہی ووٹ کو عزت دو کے نعرے نے گرمی پیدا کی، نہ ہی نواز اور مریم کا جیل جانا ان پر اثر انداز ہوا، بس ان کے ذہنوں میں اور خیالوں میں اگر کوئی بس رہا تھا تو وہ صرف اور صرف عمران خان تھا۔
محرومی،یاس ومایوسی، استدلال، ظلم،عدم تحفظ ومساوات، جاگیردارانہ نظام، شخصی اور خاندانی موروثی سیاست والے گھٹن زدہ ماحول میں ان کی نظر پرتی تو عمران پر ہی پڑتی، وہ یہ کہتے یار سبکو آزمالیا ایک بار اس کو آزمانے میں کیا حرج ہے ؟ کینیڈا سے لے کر امریکہ مشرق وسطیٰ میں بسنے والے پاکستانی ہوں یا کراچی ڈیفنس سے لے کر خیبر تک سب پر اس کا جادود سر چڑھ کر بولا، اب جبکہ عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر برجمان ہیں تو اس کے دیوانوں کے خیالوں اور خوابوں کے خوانچے بھی اونچی اونچی دیواروں پر موجود ہیں ،عمران کی جیت کے بعد کی گئی پہلی تقریر کو مخالفوں نے بھی پسند کیا کیونکہ یہ کسی پر الزامات اور تنقید سے پاک تھی، جس کو سب نے بردبارانہ تقریر قرار دیا کیونکہ انہوں نے اس تقریر کے ذریعے جہاں دوستوں کے دل خوش کئے وہیں دشمنوں کو بھی مایوس نہیں کیا،تعلیم، روزگار، صحت سے متعلق انہوں نے اپنی ترجیحات بیان کیں، ان کا کہنا تھا کہ کئی ملکوں کی اتنی آبادی نہیں جتنے لوگ پاکستان میں تعلیم سے محروم ہیں، انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں اسکول کھولنے اور گورنر ہائوس عوام کو مختص کرنے کی بات کی، عالمی طاقتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تو سیاسی مخالفین کو بھی دوستی کی پیشکش کی ،ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کے وعدے کئے اب جبکہ اسلام آباد ان کی دسترس میں ہو گا تو تحریک انصاف کو اپنا آپ منوانا ہو گا، اور اپنے کاموں کے ذریعے عوام کو بتانا ہو گا کہ ان کے قول وفعل میں تضاد نہیںہے، حالیہ انتخابات کا اگر ہم جائزہ ہیں تو خیبر پختونخواہ میں ان کو دو تہائی اکثریتی ووٹ ملے جبکہ کراچی اور پنجاب میں بھی انہوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں حالانکہ ان دونوں جگہوں سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے لیکن خیبر پختونخواہ میں سیاستدانوں نے دھاندلی کا رونا نہیں رویا، غلام احمد بلور سمیت کئی سیاستدانوں نے نتائج آنے کے بعد اپنی شکست کو بیانگ دھل تسلیم کرتے ہوئے ٹی وی انٹرویو دیئے تاہم بعض سیاسی پنڈتوں کیلئے یہ نتائج غیر متوقع تھے، جبکہ ان کو پی ٹی آئی کی فتح تکلیف دہ لگ رہی تھی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست میں عرصہ داراز سے فرسودہ سیاسی کلچر کا مزاج بنا دیا گیا ہے، کئی سیاس رہنما انتخاب جیتنے کو اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں، وہ اس بات سے نالاں ہیں کہ وہ کیوں نہیں جیتے تاہم بعض جگہوں پر حیران کن نتائج اور چھ بجے کے بعد فارم45 کا نہ ملنا ہر کسی کیلئے سوالیہ نشان تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا، میں خود الیکشن نتائج دیکھ رہا تھا اور جو نتائج نظر آ رہے تھے اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ دونوں جانب نشستیں برابر ،برابر آ رہی ہیں یعنی مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی نشستیں پی ٹی آئی کے مقابلے میں برابر جا رہی تھیں، مگر بعد ازاں یکے بعد دیگرے یہ شکایات آنا شروع ہو گئیں اور کئی جیتے ہوئے امیدوار صبح ہارے ہوئے نظر آئے ٹی وی کے اینکر جو رات کو چیخ رہے تھے صبح ایسے خاموش ہوئے کہ رات ان کی جانب سے کی گئی باتوں پر شک ہونے لگا۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ پلان نمبر2تھا جس کے مطابق صرف چند مخصوص حلقوں کو چھیڑا گیا تا کہ سادہ اکثریت دلا کر عمران خان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے، اس طرح جیپ،تحریک لبیک سمیت کالعدم تنظیموں کو ان انتخابات میں ووٹ تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا جس پر ان پارٹیوں کے رہنما بھی حیران تھے کہ ہم سے تو کچھ اور وعدہ کیا گیا تھا لیکن26جولائی کو انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ ان سب کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔
نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کی جانب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس سے فوج کا مورال کافی حد تک خراب ہوا تاہم نواز شریف پارٹی نے اسٹیبلشمنبٹ کے کردار کے منفی گوشوں کو روشنی میں لا کر عوام کو تہہ داری کا احساس دلا یا، انہوں نے عوام کو بتایا کہ یہ پرچھائیں کون لوگ ہیں ان کا عوام سے کیا رشتہ ہے اور کس سیاستدان کا اصل کردار اسی پرچھائیں کے اثر تلے کام کررہا ہے بہر کیف اب یہ سب تمام باتیں ماضی کا حصہ بن گی ہیں، جو حکومت آچکی ہے اس کے اثرات میڈیا پر بھی سے پڑنا شروع ہو گئے ہیں، حکومت آنے سے قبل ہی میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ کر دی گئی ہے او ر بڑے بڑے میڈیا کے مالکان بھی جھکنے پر مجبور ہو گئے ہیں، تا ہم ڈان اخبار اب تک ڈٹا ہوا ہے ہم بھی ماضی کے دھندلک اندھیروں میں واپس جانا نہیں چاہتے مگر اظہار رائے کی آزادی پر بھی کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ ہر شہری کا یہ آئینی حق ہے مگر جس طرح سپریم کورٹ اس وقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی باندی کا کردار ادا کررہی ہے اس امر نے پورے ملک کو اور اس کی عوام کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے ،تاہم خوشی کے ان لمحات میں جب عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھا ہیں تو ہم ان کی یاداشت اور عوام کے ریکارڈ کیلئے ان کو29اپریل2018کا جلسہ یاد دلاتے چلیں جب مینار پاکستان پر ہونے والے جلسہ میں اور20مئی کوعمران خان نے پہلے سو دن کا جو پلان عوام کو دیا تھا اور نئے پاکستان کے حوالے سے پھر25جولائی کو قوم سے خطاب میں انہوں نے جس عزم کا اعادہ کیا تھا، اس کو یاد دلانا اور ضبط تحریر لانا ضروری ہے، عمران خان نے ان مواقعوں میں میں کہا تھا کہ ہم ملک میں استحکام لے کر آئینگے، ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ اور ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائی جائیں گی، انکم سپورٹ پروگرام کو6کروڑ پاکستانیوں تک پہنچایا جائے گا تا کہ نچلے طبقہ کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا حکومت آنے کے فوری بعد زرعی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے گا، ہاریوں(مزارعوں) کو قرضے فراہم کئے جائینگے، ون ونڈو قرض اسکیم متعارف کرائی جائے گی، پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جائینگے، عورتوں کی فلاح وبہبود کیلئے کرمنل جٹس رفارم کا آغاز کیا جائے گا، شہروں میں صاف پانی فراہم کیا جائے گا، طرز حکومت کی تبدیلی اولین ترجیح ہو گی، معیشت کی بحالی سماجی خدمات میں انقلاب، دہشت گردی کا خاتمہ،ملکی سلامتی کی ضمانت،
کرپشن کے خاتمے کیلئے نیب کو خود مختیار اور مضبوط ادارہ بنایا جائے گا، ایک کروڑ نوکریاں پیدا کی جائیں گی، جبکہ انتخاب جیتنے کے بعد عمران نے یہ بھی کہا کہ میں وزیر اعظم ہائوس میں رہنے کے بجائے وزیر انکلیو میں رہونگا، احتساب کی شروعات اپنے آپ سے کروں گا، عمران خان جب یہ باتیں کہہ رہا تھا تو مخالفین نے اس کو دیوانے کے خواب سے تعبیر کیا، اپوزیشن والے اس پروگرام کو ایک کہانی سے تعبیر کررہے ہیں، کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس پر عمران خان ان وعدوں پر عملدرآمد کرا دے گا تو وہ سیاست چھوڑ دینگے، جس میں سرفہرست ایک کروڑ نوکریاں اور50لاکھ گھروں کی تعمیر سر فہرست ہے،اس وقت جو حکمران نہیں ہیں وہ بھی کبھی حکمران تھے ،پیپلز پارٹی، ن لیگ، دونوں کو عوام نے بھر پور میڈیٹ دیا انہوں نے بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں پہلے100روز کا پروگرام دیا ،پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ وہ ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیموں پر سے پابندیاں ختم دینگے ، جمہوریت کو استحکام دینگے، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرینگے، FRCختم کردینگے،فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا، مہنگائی پر قابو پایا جائے گا، بلوچستان میں مصالحتی عمل کی شروعات کی جائے گی،دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے گا، توانائی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، معیشت کو مضبوط بنایا جائے گا، اس طرح مئی2013ء میں ن کی حکومت قائم ہوئی انہوں نے بھی100 دن کا جو پروگرام دیا وہ وہی ڈرافٹ تھا جو کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آتے وقت پہلے سے انائونس کیا تھا لیکن ن لیگ نے سیاسی مفاہمت کو ترک کیا، قرضوں میں کمی بھی نہ ہو سکی، ہاریوں کو سہولیات، صحت، تعلیم سب کیلئے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور خزانہ میں زر مبادلہ کے ذخایر میں اضافہ مگر افسوس دونوں حکومتیں اپنی اپنی باریاں لیکر چلی گئیں کچھ کام کیئے اور کرپشن کی نئی داستانیں رقم کیں جبکہ عوام اپنی باری کے انتظار میں ہی رہے، تاہم اب عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا ہے اس کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے پر لبیک کہہ کر اس کو بھی ایک باری دلا دی ہے گو کہ اپوزیشن عمران خان پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے لیکن آپ نے بھی ایسے پارلیمنٹرین کی اکثریت کو ٹکٹ دئیے ہیں جن کے ساتھ کافی بیگیج ہے اس طرح ان آزاد امیدواروں کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہے جو عرصہ دراز سے لوٹا کریسی کا شاخسانہ رہے ہیں، ایم کیو ایم جس کو آپ پوری عمر برا کہتے رہے وہ بھی آپ کی اسی کشتی میں سوار ہیں جس کے ناخدا آپ ہی ہیں۔اسی طرح یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ پی ٹی آئی سے دیگر سیاسی جماعتوں نے اور آزاد امیدواران نے جو بھی معاہدے کئے ہیں ان کو تحریری طور پر لکھا گیا ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اتحاد یوں کا پی ٹی آئی پر اعتماد پختہ نہیں، تاہم ہماری خواہش ہے کہ ملک ترقی کرے ،عوام خوشحال ہوں، کرپٹ سسٹم، غیر شفاف نظام کا خاتمہ ہو،مگر عوام کو یہ نہیں معلوم کہ5,4 سال بعد تبدیلی کے نام پر ان کو ہمیشہ دھوکہ دیا جاتا ہے، آج بھی ایک غیر مستحکم حکومت سامنے ہے،ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ عوام پانچ سال تک اس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غصہ کو برداشت کرتے رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اصل دشمن بے نقاب ہو مگر جوں ہی5سال پورے ہوتے ہیں توبدقسمتی سے ان کا وہی دشمن نئے انداز میں دوستی، وفاداری، ہمدردی اور محبت کا لبادہ اوڑھ کر آ جاتا ہے اورپھر وہی رہزن ایک بار پھر عوام کی اس تبدیلی کو اُچک لیتا ہے، اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی یہ قوم پھر انہی رہزنوں کو دوست اور ملک کا مسیحا سمجھ کر اگلے پانچ سالوں کے لئے منتخب کر لیتی ہے، اس طرح سب کچھ بیکار چلا جاتا ہے، یہیی کھیل اکتر سالوں سے چل رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو یہ پہچاننا ہو گا کہ اس کا اصل دشمن کون ہے جس نے71سالوں سے قوم کو خوش حالی سے دور رکھا ہوا ہے، تحریک انصاف ہو کہ مسلم لیگ ن ،ایم کیو ایم ہو کہ ایم ایم اے ۔اے این پی ہو کہ دیگر مذہبی جماعتیں یہ عوام کی اصل اور حقیقی دشمن نہیں ہیں، ہم سب کا دشمن کرپٹ نظام انتخاب ہے، یہ سب کچھ گزشتہ 71 سالوں سے چلتا چلا آرہا ہے، جس کے ذریعے مخصوص لوگوں کو پالا جا رہا ہے، یہ لوگ ملک کی آبادی کاایک فی صد بھی نہیں جنہوں نے99فیصد قوم کو اپنے گورکھ دھندے میں جکڑا ہوا ہے، اب بھی جعلی جمہوریت ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے جو کہ اس کرپٹ نظام کے گرد گھوم رہی ہے یہ سیاست میں بھی دھوکہ ہے، اب بھی دیہی علاقوں میں جاگیردار اور شہری علاقوں میںسرمایہ دار سیاست پر قابض ہیں، پاکستان میں کوئی بھی الیکشن دس بیس کروڑ رپوں سے کم میں نہیں لڑ ا جاسکتا، تمام پارٹیوں میں چند ایک ہی غریب کارکنوں کوان نشستوں میں کوئی حیثیت ملتی ہے ہاں البتہ اس نظام کے خلاف ایم کیو ایم وہ واحدسیاسی جماعت تھی جس کے اراکین اسمبلی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے تھے لیکن اس میں سے بھی کئی اس کرپٹ زدہ نظام کا شکار ہو گئے،آج جو جنگ آپ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہم دیکھ رہے ہیں وہ محض نورا کشتی ہے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں اسی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں ہر دور کی فوجی آمریت نے اپنے سائے تلے ان کی خودپرورش کی ہے،ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ نہ کبھی کمزور پڑا ہے اور نہ ہی ختم ہوا ہے وہ ایک مضبوط، مستحکم اور مؤثر ادارہ ہے اور اس لئے یہ ایک کھیل اس طرح ہی چلتا رہے گا۔
عمران خان کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرتے تھے بہت کھری کھری سناتے تھے مگر آج وہ بھی اس کی اسٹیٹ اسکو(Statusquo) کا حصہ بن کر اقتدار کی کرسی پر برجمان ہوچکے ہیں وہ بھی اس وقت ایک طرف جاگیرداروں،وڈیروں تو دوسروی طرف سرمایہ داروں کے چنگل میں ہیں،تیسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں انکے کنٹرول کا ریموٹ موجود ہے ۔ملک کے نوجوانوں نے تبدیلی کے اس نعرہ کو اس لئے لگایا اور عمران خان کا اسلیئے ساتھ دیا ہے کہ وہ انکو بھی انقلابی سمجھ رہے ہیں اور ان پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں لیکن ان نوجوانوں نہیں معلوم کہ ان کی تبدیلی ہائی جیک ہو چکی ہے،وہی اسٹیبلشمنٹ جو آج ان کو مواقع فراہم کررہی ہے وہی اسٹیبلشمنٹ ماضی میں نواز شریف کو بھی مواقع فراہم کرتی آئی ہے، ایوب خان،یحییٰ،جنرل ضیائ، جنرل مشرف کا دور دیکھ لیں اور سول دور حکومت بھی دیکھ لیں سب مختلف نعرے لیکر آئے لیکن یکے بعد دیگرے سب دھوکہ دیکر چلتے بنے۔تبدیلی آئی تو مخصوص لوگوں کے گھر میں آئی وہ وزیر ہوں یا فوجی جنرل، یہی ہر دور میں خوشحال رہے، میں مایوسی کی بات نہیں کرونگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ سسٹم رہے گا، عوام اس وقت تک خوشحال نہیں ہو سکتے پاکستان میں بے انصافی کی آگ، رشوت ستانی کا زہر، جھوٹ مکرو فریب کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا، عوام کو اب نئے پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ ان اُمیدوں کو پرا کرنے میں ان کی مدد کرے اور عمران خان کو وہ ہمت دے جس کی قوم کو70سالوں سے تلاش ہے لیکن انتخابات کے نتیجہ میں اور اس سے قبل جو واقعات رونما ہوئے ان سے تو مجھے بہتری کی امید نظر نہیں آئی، ہوسکتا ہے کہ کوئی معزہ رونما ہوجائے اور عمران خان تاریخ میں وہ کچھ کرجائیں جسکا وہ اپنے سابقہ ماضی میں بارہا اظہار کرچکے ہیں مگر یاد رہے اصل تبدیلی اس وقت ہی واقع ہو گی جب یہ پورا نظام تبدیل ہو گا تاہم کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اس اسٹیٹس کو کے نظام کو وہ تبدیل کر سکے کیونکہ اس طرح کی تبدیلی بھٹو نے بھی چاہی تھی بینظیر بھٹو بھی ایسی تبدیلی کی خواہاں تھیں باوجود دیگر منفی باتوں کے نواز شریف بھی آج کل اسہی تبدیلی کا خواہاں تھا مگر یہ تبدیلی وہ تمام رہنما نہ لا سکے، شاید اسوجہ سے کہ وہ کرپٹ تھے عمران خان تبدیلی اور نئے پاکستان نعرہ لگا کر وزیر اعظم کی کرسی پر برجمان ہو چکے ہیں اور بقول اقبال
پیوستہ رہ شجر سے
اُمید بہار ریکھ…
اس لئے اب قوم عمران خان کی صورت میں اس امید بہار کی متلاشی ہے مگر وقت کم ہے اور مقبلہ سخت مگر یہ بات بھی ابھی قبل از وقت ہے ،آنے والے ماہ وسال آپ کو یہ بتا دینگے کہ وہ اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہو سکے ہیں اور نیا پاکستان اور تبدیلی کا یہ خواب جو کروڑوں عوام خصوصاً نوجوانوں نے دیکھا ہے وہ کس حد تک شرمندہ تعبیر ہو سکے گا…!