پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن کمشین سے انتخابات کے لیے فوری تاریخ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر جانب دارانہ انتخابات کے ذریعے ہی تمام دعویداروں کو برابری کا میدان ملے گا جبکہ ہیرا پھیری سے اقتدار کی منتقلی سیاسی عدم استحکام کی جڑ ہے۔
آئین کی 50 ویں سالگرہ کے حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ’ میری پارٹی پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد سے انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا مطالبہ کر رہی ہے، 90 دنوں کی میری معروف رائے سے قطع نظر جو کہ اب ایک موٹ پوائنٹ بن چکا ہے، الیکشن کا حق بالکل ناقابل تردید ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں صوبوں کے انتخابات کے تنازع کے وقت میری جماعت اور میں نے سیاسی مذاکرات اور آئینی بحران کے حل کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے مخلصانہ کوشش کی لیکن 9 مئی کے واقعات سے ان کوششوں پر پانی پھیر گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب ایک ہی راستہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ’گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعات کے بعد مجھے بھروسہ ہوگیا کہ اب مزید تاخیر نہیں ہوگی‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نواز شریف اپنی 4 چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس پہنچے تھے۔
بلاول بھٹو نے انتخابات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’غیر جانب دارانہ انتخابات کے ذریعے ہی تمام دعویداروں کو برابری کا میدان ملے گا‘۔
انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے الیکشن فوری کروانے اور انتخابات کی تاریخ اور شیڈول جاری کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کوئی اور ادارہ حکم دے، الیکشن کمیشن اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یہ کام خود کرلے‘۔
’کیا جج صاحبان خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے‘
احتساب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں آئین کی تشریح کرتے ہوئے عدلیہ نے صرف اپنی طاقت بڑھائی اور دوسرے اداروں کی طاقت کمزور کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ہی ادارے کی طرف سے ایک ہی قانون کے تحت سب کے احتساب پر یقین رکھتے ہیں، ’عدلیہ کی آزادی کا مطلب احتساب سے اس کی آزادی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے معزز جج صاحبان احتساب کے اپنے دعوے پر اعلان کے بہت شوقین ہیں، خاص طور پر جب بات سیاسی اور سویلین فوجی رہنماؤں کی ہو‘۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ہر وزیراعظم نے کبھی نہ کبھی خود کو احتساب کے لیے اس ادارے کے سامنے پیش کیا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ اب معزز جج سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے‘۔
’پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے فیصلے سے پارلیمنٹ کی امید بڑھی ہے‘
بلاول بھٹو زرداری نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے حالیہ فیصلے نے پارلیمنٹ کی امیدیں بڑھا دی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فل کورٹ بینچ کے فیصلے نے امید پیدا کردی ہے کہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات کا تحفظ کیا جائے گا، چاہے اس کے لیے موجودہ چیف جسٹس کو اپنے ساتھی سینئر ججوں کو اپنے اختیارات میں شریک ہی کیوں نہ کرنا پڑے، یہ عدلیہ کے مستقبل کے لیے ایک حوصلہ افزا علامت ہے‘۔
عدلیہ کو درپیش چیلنجز کی بات کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ ’ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی کی ضرورت ہے، اسی طرح توہین عدالت کے قانون پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے دائرے میں ہمیں ایک بہت بڑا چیلنج شہریوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے درپیش ہے، جبری گمشدگی کا کمیشن بری طرح ناکام ہو چکا ہے، اب تک ایک بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی‘۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ’ایک اور بڑا چیلنج انتخابات اور اقتدار کی منتقلی میں طاقت کا جوڑ توڑ ہے، درحقیقت ہیرا پھیری سے اقتدار کی منتقلی سیاسی عدم استحکام کی جڑ ہے‘۔
انہوں نے اتفاق رائے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہم نے مختصر دورانیےکے لیے اتفاق رائے کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے، ہمیں تمام اداروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا’۔
سابق اتحادی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم نے پی ڈی ایم کا ساتھ اس وجہ سے دیا تھا کہ ہمیں تو سیلکٹڈ راج ختم کرکے جمہوریت بحال کرنا تھی، ووٹ کو عزت دلوانا تھا، پارلیمان کی عزت کو منوانا تھی، ساری غیر جمہوری طاقتوں کو دکھانا تھا کہ کیسے جمہوری حکومتیں قائم ہوتی ہیں مگر اس تجربے کے بعد مجھے پتا چلا ہےکہ انگریزی محاورے ’ جہنم کا راستہ بہترین ارادوں کے ساتھ ہموار کیا جاتا ہے‘ کے معنی سمجھ آگئے ہیں’۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہماری آج کی جمہوریت کل سے بہتر ہے مگر ہمیں پاکستان کی آنے والی نسلوں سے وعدہ کرنا ہوگا کہ ان کا کل ہمارے آج سے بہتر ہوگا’۔