سان فرانسسكو:
کسی حادثے، دماغی چوٹ، اعصابی خرابی اور دیگر عوارض سے قوتِ سماعت کھودینے والے افراد کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہے کہ اب دماغی سگنل کو پڑھنے والا ایک ایسا دستی سسٹم بنالیا گیا ہے جس کی بدولت وہ لوگوں تک اپنی بات پہنچاسکیں گے۔
اس آلے کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے پروفیسر ایڈورڈ ایف چینگ اور ان کے ساتھیوں نے تیارکیا ہے جس کی تفصیلات ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ ہمیں اس کی قدر نہیں کہ ہم کتنی آسانی سے بات کرپاتے ہیں اور ان سے پوچھئے جو اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر ہیں اور اپنی بات سنانے کو تڑپتے رہتے ہیں۔
’مجھے امید ہے کہ یہ ایجاد ایسے لوگوں کی آواز بنے گی جن کے اعضا اور پٹھے الفاظ ادا کرتے ہوئے حرکت کی نقل کرتے ہیں،‘ ڈاکٹر ایڈورڈ چینگ نے بتایا۔ اس نظام میں برقیروں (الیکٹروڈ) کے ایک چھوٹے سے مجموعے کو کھوپڑی پر لگایا جاتا ہے اور بولنے والا آواز نہ آنے کے باوجود اپنے منہ کے عضلات اور ہونٹوں کو ہلاتا ہے۔ اس حرکت کو دماغ نوٹ کرکے ایک پروسیسر کو بھیجتا ہے اور یوں مشین سے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔
پہلے تجربے میں پانچ افراد کو یہ آلہ لگایا گیا جنہوں نے بہت کامیابی سے 150 الفاظ فی منٹ اداکئے جو کہ اس قسم کے نظاموں کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں ہونٹوں اور منہ کے عضلات کے علاقہ حلق، زبان ، جبڑوں اور بولنے میں ضروری حرکتوں کو بھی نوٹ کیا جاتا ہے اور ان کی حرکات کو پروسیس کرکے مشین سے مصنوعی آواز آتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اس وقت تک کام کرتی رہتی ہے جب تک مریض بولنے کے عمل کی حرکات اپنے منہ سے انجام دیتا رہتا ہے۔ سگنل سے آواز خارج کرنے کا نظام عین اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح اسٹیفن ہاکنگ کی وھیل چیئر پر موجود کمپیوٹر سے کیا جاتا تھا لیکن وہ مشکل سے ایک منٹ میں دس الفاظ ادا کرپاتا تھا۔
جن مریضوں نے اسے آزمایا ہے وہ سب مرگی کے مریض تھے لیکن وہ درست انداز میں وہ تمام پٹھے اور عضلات کو حرکت دے پارہے تھے جوگفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔ مریضوں سے مکمل جملے کہلوائے گئے اور اس دوران دماغی سگنلوں سے مصنوعی آواز آتی رہی۔ اس کے بعد صرف ہونٹ ہلائے گئے اور اس سے کمپیوٹر پروگرام کی ٹریننگ کی گئی۔ اس طرح کمپیوٹر پروگرام تیزی سے سیکھنے لگا۔
اگرچہ ایسے کئی نظام پہلے بھی بنائے گئے ہیں لیکن اول ان کی رفتار بہت سست ہے تو دوم ان میں غلطی کا احتمال بھی ہوتا ہے