پیرس:
ریسرچ جرنل ’’ایکٹا بایومیٹیریالیا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں ان سائنسدانوں نے انسانی ٹیکسٹائل کو ٹشو انجینئرنگ سے تیار کردہ مصنوعات کی نئی نسل قرار دیتے ہوئے اسے انسانی جسم کےلیے ہر لحاظ سے موزوں ترین قرار دیا ہے۔
ان ریشوں کی تیاری کےلیے پہلے مرحلے میں انسانی کھال کے خلیوں کو ایک پتلی چادر کی شکل دی جاتی ہے جس میں سے باریک باریک ریشے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ پھر انہیں دھاگے کی طرح استعمال کرلیا جاتا ہے یا پھر ضرورت کے مطابق کوئی شکل دے دی جاتی ہے۔
’’ہم اس (انسانی ریشے) سے تھیلیاں، لچک دار نلکیاں، والو اور سوراخ دار جھلیاں بنا سکتے ہیں،‘‘ اس تحقیق کے مرکزی سائنسداں نکولاس لے ہیوریوکس نے کہا، ’’دھاگے سے آپ پارچہ بافی کا کوئی بھی کام لے سکتے ہیں: بُنائی، سلائی اور کپڑا سازی تک۔‘‘
ابتدائی تجربات میں اس خصوصی ریشے کو چوہوں کے زخموں کی سلائی میں استعمال کیا گیا، جو دو ہفتوں میں مکمل طور پر بھر گئے۔ علاوہ ازیں، اسی ریشے سے انہوں نے خاص طرح کی مشین پر کھال کا پیوند تیار کیا جس سے ایک بھیڑ کی کٹی ہوئی رگ کو کامیابی سے بند کیا گیا۔
واضح رہے کہ یہ وہی فرانسیسی ماہرین ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل زندہ خلیوں پر مشتمل حیاتی مادّے (بایومٹیریل) کی پتلی چادریں تیار کی تھیں جنہیں لپیٹ کر خون کی مصنوعی نالیوں کی شکل دی گئی تھی۔