’کم روشنی‘ کا مسئلہ، کرکٹ زمانہ قدیم میں موجود


ساؤتھمپسٹن: 

’کم روشنی‘ کے معاملے پر کرکٹ اب بھی زمانہ قدیم میں موجود ہے جب کہ پلیئرز کی حفاظت کے نام پر معاملہ ختم کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔گزشتہ صدی کے اوائل سے آخر تک ٹیسٹ کرکٹ میں سست روی سے بیٹنگ اور مقابلوں کی اکثریت کا ڈرا ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی، پہلے خود کو بچاؤ کی پالیسی مقدم ہوتی تھی، اس وجہ سے بھارت اور انگلینڈ میں 82-1981 میں کھیلی گئی 6 میچز کی سیریز کا نتیجہ بھارت کے حق میں 0-1 سے سامنے آیا تھا، مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ صبرمیں کمی، زیادہ بہتر آپشنز کی دستیابی اور خاص طور پر ٹی 20 فارمیٹ کے بعد سب کچھ تبدیل ہوگیا، کھیل کو وقت کے ساتھ جدید بنانے کیلیے مختلف اقدامات کیے گئے مگر کم روشنی کے معاملے میں کرکٹ اب بھی زمانہ قدیم میں موجود ہے۔

انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا ٹیسٹ بارش اور کم روشنی سے شدید متاثر ہوا، دوسرے روزایجز باؤل پر سارا دن بادل چھائے رہے اور فلڈ لائٹس بھی تمام وقت آن رہیں، کھلاڑیوں کے فیلڈ سے باہر آنے سے 2 بالز قبل محمد رضوان نے اسٹورٹ براڈ کی گیند کوکورز اور پھر مڈ آن کی جانب کھیلا، بعد ازاں ان کا کہنا تھا کہ وہ کھیل جاری رکھنے کو تیار تھے، اسی طرح میزبان بولر جیمز اینڈرسن کا کہنا تھا کہ انھیں بھی کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، بیٹسمین اور بولرز دونوں ہی فیلڈ سے باہر آنے کے حق میں نہیں تھے مگر امپائرز نے قوانین کی پیروی کی۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم روشنی کے معاملے کو پلیئرز کی سیکیورٹی کی آڑ میں چھپایا نہیں جا سکتا، اس کا حل ڈھونڈنا ضروری ہے، اگر سیکیورٹی کی بات ہے تو پھر ٹیل اینڈرز کو خوفناک باؤنسرز کے سامنے کیوں کھڑا کیا جاتا ہے، امپائرز بغیر ہیلمٹ کے ٹی 20 کرکٹ میں ذمہ داری کیوں انجام دیتے ہیں، اگر کم روشنی میں گیند کے نہ دکھائی دینے کا مسئلہ ہے تو اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے، امپائرز کے ساتھ فیلڈرز بھی ہیلمٹ یا اس قسم کی حفاظتی چیزیں پہن سکتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کھیل کے بڑے اسٹیک ہولڈرز شائقین جبکہ فیصلہ سازی میں ان کو اہمیت نہیں دی جاتی، وہ’پے ٹی وی‘ کے سامنے پلیئرز کو بالکونی میں بیٹھا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، انھوں نے خبردار کیا کہ اگر شائقین کی دلچسپی کھیل میں برقرار نہیں رہی تو وہ دستیاب دیگر آپشنز کا رخ کرسکتے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں