کراچی: ستمبر کے مہینے میں ڈینگی بخار سے 4 شہری جاں بحق

کراچی: ستمبر کے مہینے میں ڈینگی بخار سے 4 شہری جاں بحق


کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں ستمبر کے مہینے میں چار مریض ڈینگی بخار کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔

ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم آئیڈیس (Aedes) کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس منتقل کردیتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ ایک وبا کی شکل اختیار کرتا ہوا ڈینگی بخار ملک کے بیشتر علاقوں میں پھیل چکا ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے میں ڈینگی بخار کے 113 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 107 کا تعلق کراچی سے ہے۔

کراچی میں سب سے زیادہ کیسز ضلع شرقی میں سامنے آئے ہیں، جس کے بعد ضلع جنوبی، سینٹرل اور کورنگی میں بھی متعدد کیسز سامنے آئے ہیں۔

وزیر صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک کراچی میں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے چار اس ماہ لقمہ اجل بنے۔

انہوں نے کہا کہ مرنے والوں میں چار خواتین اور پانچ مرد شامل ہیں، سب سے زیادہ متاثر شہر کا ضلع شرقی ہوا ہے جہاں چھ اموات ہوئیں جبکہ ضلع وسطی، ملیر اور جنوبی میں ایک، ایک موت ہوئی۔

قبل ازیں، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صدیقی نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ضلع شرقی میں ملیریا اور ڈینگی سے بچاؤ کے لیے فیومیگیشن اسپرے کروایا گیا ہے۔

مون سون بارشوں کے بعد سندھ بھر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، ڈان کی رپورٹ کے مطابق ڈینگی بخار کے کیسز میں اضافے کے بعد کراچی کے نجی اور سرکاری ہسپتال بھر گئے ہیں۔

ہسپتالوں میں سندھ متعدی امراض ہسپتال (ایس آئی ڈی ایچ آر سی)، ریسرچ سینٹر ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال، سول ہسپتال، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور جناح ہسپتال شامل ہیں۔

ڈاؤ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زاہد اعظم کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں روزانہ 40 سے 50 مریض داخل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ داخل مریضوں میں سے 8 کو آئی سی یو میں رکھا گیا ہے جبکہ دیگر کو ایک یا دو دن بعد ڈسچارج کیا جا رہا ہے، جن کا کلینکس میں مسلسل چیک اپ ہوتا رہتا ہے۔

‘ڈینگی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر’

گزشتہ روز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے حکومت سے انسداد ڈینگی اسپرے کا نظام مزید مؤثر بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کراچی میں سیلاب زدہ علاقوں سے رکا ہوا پانی نکالنے پر بھی زور دیا تھا۔

پی ایم اے نے ڈینگی سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ وائرل بیماری کے انتظام کے لیے بھی احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں، جس نے پہلے ہی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کیونکہ روزانہ سینکڑوں اور ہزاروں مریض سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ جنرل پریکٹیشنرز کے پاس طبی معائنے کے لیے جاتے ہیں۔

پی ایم اے نے مزید کہا کہ ڈینگی بخار کے لیے کوئی مخصوص علاج یا ویکسین موجود نہیں ہے مگر مچھروں کا خاتمہ ہی اس کا روک تھام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مچھروں کے خاتمے سے مچھروں سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں جیسا کہ ملیریا کو روکنے میں بھی مدد ملے گی، جو اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں، اس کے علاوہ چکن گونیا انفیکشن اور زیکا بخار بھی روکا جا سکتا ہے۔

ڈینگی بخار کے انتظام سے متعلق پی ایم اے کی احتیاطی تدابیر میں کہا گیا کہ بیماری کی علامات انفیکشن کے تین سے چار دن بعد شروع ہوتی ہیں اور اس میں تیز بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں، آنکھوں اور ہڈیوں میں درد شامل ہو سکتی ہیں۔

احتیاطی تدابیر میں بتایا گیا ہے کہ ڈینگی بخار کا تعلق جلد کے دھبے سے بھی ہو سکتا ہے مسوڑھوں، ناک، منہ، کانوں اور جسم کے دیگر حصوں سے خون بھی بہہ سکتا ہے۔

پی ایم اے نے کہا ہے کہ مچھروں کے کاٹنے سے بچنے کے لیے اسپرے، جالیوں، مچھروں کی چٹائیوں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

مزید کہا گیا ہے کہ اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو پتلون اور مکمل قمیضں پہننے دیں اور اپنے اسکول کے احاطے میں مچھر مار اسپرے کروائیں۔

پی ایم اے نے احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے مزید کہا ہے کہ تیز بخار کی صورت میں، کوئی اینٹی بائیوٹک دوا، ملیریا سے بچنے والی گولی یا اسپرین نہ لیں، اس حوالے سے ہمیشہ مستند ڈاکٹروں سے مشورہ کریں، وافر مقدار میں پانی پئیں، گھر کا بنایا ہوا تازہ کھانا کھائیں، اچھی طرح نیند کریں، جس سے جسم کی قوت مدافعت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں