رواں سال کے آغاز میں چین سے شروع ہونے والے مہلک کورونا وائرس نے اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی متاثر کیا ہے تاہم اب بھی اس وائرس سے سب سے زیادہ چینی افراد ہی متاثر ہوئے ہیں۔
چین میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر 18 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 361 ہوچکی ہے۔
چینی حکام کے مطابق 3 فروری 2020 تک چین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 17 ہزار 205 جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 361 ہوچکی تھی۔
جہاں کورونا وائرس سے دنیا بھر میں خوف پھیلا ہوا ہے اور امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سمیت دیگر ممالک میں بھی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
وہیں دنیا بھر کی حکومتیں وائرس سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات بھی اٹھا رہی ہیں۔
تاہم یورپی ملک ڈینمارک کے ایک اخبار کی جانب سے چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے حوالے سے ایک متنازع کارٹون شائع کرنے پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب ڈینمارک کے اخبار ’دی جٹ لینڈ پوسٹ‘ نے کورونا وائرس کے حوالے سے ایک متنازع کارٹون شائع کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ڈینمارک اخبار کی جانب سے کارٹونسٹ نیلس بو بوسن کے بنائے گئے کارٹون پر چینی حکام نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کارٹونسٹ اور اخبار چینی عوام سے معافی مانگے۔
رپورٹ کے مطابق اخبار کی جانب سے شائع کیے گئے کارٹون میں چین کے قومی جھنڈے پر پیلے رنگ کے وائرس کے 5 نشانات دکھائے گئے تھے۔
مذکورہ کارٹون یا تصویر کو اخبار کے اہم صفحے پر سب سے اوپر شائع کیا گیا تھا۔
چین کے قومی جھنڈے پر کورونا وائرس کے نشانات شائع کرکے اسے تصویر یا کارٹون کی شکل میں اخبار میں شائع کرنے پر چینی حکومت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
ڈینمارک کے اخبار میں شائع کارٹون یا تصویر پر سب سے پہلے ڈینمارک میں موجود چینی سفارتخانے نے اعتراف کیا اور کارٹونسٹ کے عمل کی سخت مذمت کی۔
چینی سفارتخانے نے ڈینمارک اخبار اور کارٹونسٹ پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کارٹونسٹ کو اپنے عمل پر چینی عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔
چینی حکام نے کارٹون یا تصویر کو چینی عوام کی تضحیک قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے چینی لوگوں کو دکھ پہنچا ہے۔ تاہم چین کے مطالبے پر ڈینمارک حکومت نے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
بی بی سی کے مطابق ڈینمارک کی وزیر اعظم میڈی فریڈرکسن نے چینی حکام کی جانب سے معافی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔
ڈینمارک کی وزیر اعظم نے چینی حکام پر واضح کیا کہ ان کے ملک کا اخبار اور کارٹونسٹ معافی نہیں مانگیں گے اور انہیں ہر طرح کا کارٹون یا تصویر شائع کرنے کا مکمل حق ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ڈینمارک کے اخبار کی جانب سے کسی ملک کے خلاف کارٹون یا تصویر شائع کی گئی ہو۔
اس سے قبل بھی ڈینمارک کے اخبارات میں توہین آمیز کارٹون یا تصاویر شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ڈینمارک کے اخبارات میں کسی دوسرے ملک، قوم یا مذہب کے خلاف کارٹون یا تصاویر شائع کرنے کی پرانی تاریخ ہے اور اس حوالے سے دنیا بھر میں ڈینمارک کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔