ڈیلس میں اسلامک سوسائٹی شمالی امریکا کا سالانہ کنوینشن، روبوٹک تعلیم کا اسٹال توجہ کا مرکز

ڈیلس میں اسلامک سوسائٹی شمالی امریکا کا سالانہ کنوینشن، روبوٹک تعلیم کا اسٹال توجہ کا مرکز


رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ڈیلس : ڈیلس میں اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ امریکہ کے سالانہ کنوینشن کے دوران، امریکہ میں بچوں کو روبوٹک تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے ایک اسٹال عوام الناس اور بچوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ ڈیلس میں اس روبوٹک تعلیم کا آغاز ایک فلاحی تنظیم ‘اتکان’ کے تحت کیا گیا، جو ڈاکٹر عبیدہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اب یہ تنظیم امریکہ کی بارہ ریاستوں میں فعال ہے، جہاں 27 اسلامک سینٹرز میں مفت کلاسیں منعقد کی جا رہی ہیں، جس سے تقریباً ایک ہزار سے زائد مسلمان بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ بچے اسٹیٹ لیول سے لے کر بین الاقوامی مقابلوں تک میں حصہ لے رہے ہیں۔ ‘آل مسلم روبوٹک ٹیم’ نے فرسٹ ورلڈ چیمپئن شپ میں دو ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں۔جبکہ ان بچوں نے گذشتہ سال تقریبنا نوے سے زائد ایوارڈز حاصل کیئے جسمیں اسٹیٹ لیول سطح کے ایوارڈ بھی شامل ہیں جوکہ اس پروگرام کی شاندار کارکردگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اس پروگرام میں بچوں کے والادیں اور کمیونٹی کے کئی افراد کوچ کے بطور خدمات سرانجام دے رہے ہیں، والدین کا کہنا ہے کہ ہمارے بچے روبوٹ بنانے کے عمل کے ذریعے ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں میں مہارت حاصل کر رہے ہیں، جن میں پروگرامنگ، تھری ڈی ماڈلنگ، مصنوعی ذہانت، اور کمپیوٹر وژن قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بچے مارکیٹنگ اور پبلک اسپیکنگ کی بھی تربیت حاصل کر رہے ہیں، جس سے مسلمان بچوں کو جدید ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے، تاکہ مسلمان دوبارہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔

اتکان کے بورڈ کے رکن مزنوی جلیل۔ اور اتکان کے ایک ٹیچر اور سافٹ ویئر ڈیولپر کاشف رضا نے اس پروگرام کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہم مساجد کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کی یہ تعلیم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد وہی ہے جو تاریخی مسلمان سائنسدانوں کا تھا، یعنی علم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنا نام روشن کرنا۔ اب جبکہ مسلمان اس میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں، ہم بچوں کو یہ تعلیم دے کر انہیں اس شعبے میں آگے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چھ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچے مل کر روبوٹس تیار کرتے ہیں، اور جب یہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ مزید بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اسلامی مراکز کو مذہبی اور سائنسی ترقی کے مراکز میں تبدیل کرنا ہے، تاکہ مسلم نوجوان اپنی اسلامی شناخت کو اپناتے ہوئے ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ روبوٹکس ہینڈ آن روبوٹکس کے ذریعے عالمی معیار کی STEM تعلیم کی سہولت فراہم کرکے امریکی مسلم نوجوانوں کو اسلامی شناخت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آئیندہ کی نسلوں کو اس فیلڈ میں آگے لانا ہے
اس موقع پر روبوٹک تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا کہنا تھا کہ اسکول سے باہر ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ان میں اعتماد پیدا ہوا ہے، اور وہ اس پروگرام کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں مزید مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ مستقبل میں وہ مزید نمایاں کامیابیاں حاصل کریں گے۔


اپنا تبصرہ لکھیں