لاہور پولیس کی کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی(سی آئی اے) نے مبینہ طور پر جرائم پیشہ افراد اور بینک ملازمین کے ایک بڑے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا ہے جو بینک کلائنٹس کے اکاؤنٹس کی خفیہ تفصیلات ڈاکوؤں کے گروہ کو فراہم کرتے تھے۔
مجرموں کے ریکیٹ میں ایک بینک کے سابق منیجر سمیت 10 مشتبہ ڈاکو اور پانچ بینک ملازمین شامل ہیں۔
اس نیٹ ورک کا پتہ اس وقت لگا جب اس کے پانچ مسلح افراد نے چند ہفتے قبل ڈیفنس کے علاقے میں ایک امیر خاندان کے گھر میں زبردستی گھس کر 25 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی نقدی، طلائی زیورات، ہیرے، اے ٹی ایم کارڈ، موبائل فون اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا۔
سی آئی اے کی جانب سے شروع کی گئی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ڈاکوؤں نے اس خاندان کو متعلقہ بینک کے ملازمین کی جانب سے اکاؤنٹس کی تفصیلات افشا کیے جانے کے بعد نشانہ بنایا۔
ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ خاندان کے کچھ افراد کینیڈا میں آباد ہیں اور ان کے بینک میں اکاؤنٹس ہیں جہاں سے ان کی خفیہ معلومات مجرموں تک پہنچائی گئیں، بینک کے ملازمین نے مبینہ ڈاکوؤں کو اکاؤنٹ ہولڈرز کی تفصیلات، نام، موبائل فون نمبر اور دیگر تفصیلات فراہم کی تھیں، اس کے علاوہ انہوں نے بینک میں جمع کی گئی بھاری رقم بھی فراہم کی تھی۔
مجرموں کے طریقہ واردات کی تفصیلات بتاتے ہوئے اہلکار نے کہا کہ انہوں نے لیک ہونے والی معلومات کے ذریعے اکاؤنٹ ہولڈرز کے گھر کا پتا لگایا، کال کی اور خاندان سے ’پارسل‘ لینے کو کہا، گھر کا ایک فرد جیسے ہی گھر سے باہر نکلا اور دیے گئے پتے پر پہنچا تو مشتبہ مسلح افراد نے اسے یرغمال بنا لیا، واپس گھر لے گئے اور پورے خاندان کو لوٹ لیا۔
پولیس اہلکار نے مزید کہا کہ کامیاب ڈکیتی کے بعد ملزمان نے خاندان کو مزید بھاری رقم سے بھی محروم کر دیا جبکہ ان اکاؤنٹ ہولڈرز کے موبائل فون نمبرز اور موبائل فونز پر ایک ایپلی کیشن اپ لوڈ کی جو انہوں نے ڈکیتی کے دوران چھین لیے تھے۔
ان کے پاس اکاؤنٹ ہولڈرز کی ماؤں کے نام کے علاوہ بینک کو کارروائی شروع کرنے کے لیے درکار دیگر ضروری معلومات سمیت اکاؤنٹ کی تمام متعلقہ تفصیلات پہلے سے موجود تھیں لہٰذا مشتبہ افراد نے اے ٹی ایم کی رقم کی حد میں اضافہ کر دیا اور بعد میں 35 لاکھ روپے کی رقم واپس لے لی۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ مشتبہ افراد آن لائن بینکنگ سسٹم میں اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے چوری شدہ موبائل فونز پر ایپ اپ لوڈ کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر کام مکمل کر لیا۔
متاثرہ خاندان کے افراد سے حاصل کی گئی معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے لوٹ مار کے فوراً بعد بینک سے رابطہ کیا تھا اور اس سے کہا تھا کہ وہ ان تمام اکاؤنٹس کو بلاک کر دیں جو وہ بینک میں چلا رہے تھے لیکن احتیاطی اقدامات کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ مشتبہ افراد پہلے ہی اے ٹی ایم سے رقم نکال چکے تھے۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران ملزمان نے پولیس کو بتایا کہ بینک حکام انہیں جو معلومات فراہم کرتے تھے، اس کی بدولت انہوں نے مختلف بینکوں کے کئی کھاتا داروں کو موبائل فون پر آن لائن ایپس کا استعمال کرتے ہوئے رقم سے محروم کر دیا۔
انہوں نے سی آئی اے پولیس کو بتایا کہ اے ٹی ایم کے استعمال کے حوالے سے سب سے اہم معلومات اکاؤنٹ ہولڈرز کی والدہ کے نام کے علاوہ دیگر مطلوبہ معلومات ہوتی ہیں جو انہیں مل گئیں، ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ بینک حکام/ملازمین کی ملی بھگت سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کھاتے داروں کو بھی رقم سے محروم کرتے تھے۔
حال ہی میں پولیس اہلکار نے کہا کہ اسی نیٹ ورک نے اکاؤنٹ ہولڈرز سے بڑی رقوم منتقل کیں جن میں 32 لاکھ سے 10 لاکھ روپے تک کی رقوم شامل ہیں۔
جیسے ہی سی آئی اے نے ڈاکوؤں کے 10 رکنی گروہ کا سراغ لگا کر اسے گرفتار کیا، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملزمان کی تحویل کے لیے ایجنسی سے رابطہ کیا، گرفتار ملزمان میں پانچ ڈاکو شامل ہیں جو ڈکیتی کی وارداتوں میں براہ راست ملوث تھے۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ سی آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے اور وہ بعد میں ملزمان کو ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرے گی کیونکہ اس اہم کیس پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی آئی اے کی ٹیمیں اب بھی مجرموں کی مدد کرنے والے ایک سابق بینک منیجر اور دیگر ملازمین کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔