ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی مفادات اور عمران خان: سیاسی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار حقیقت یا خام خیالی؟


  1. ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی مفادات اور عمران خان: سیاسی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار حقیقت یا خام خیالی؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں میں ایک مخصوص امید پائی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد شاید  عمران خان کی سیاسی حمایت کرکے پاکستان کی سیاسی صورتحال کو یکسر تبدیل کردینگے۔ اس ضمن میں ٹرمپ کے جیتنے کے بعد انکے حامیوں نے پاکستان میں امریکی پرچم بھی  لہراکر خوشی کا اظہار کیا جبکہ امریکہ میں موجود انکے حمایتوں نے امریکہ  کے انتخابات انکی بھرپور مدد کی، جس نے اسطرح کے تاثر کو جنم دیا جبکہ حال ہی میں چوبیس نومبر کو احتجاج  کی آخری کال میں انکے حامیوں نے صدر ٹرمپ کی فلوریڈا میں واقع انکی رہائش گاہ کے باہر بھی مظاہرہ کرکے انکی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی، اسوقت یہ مفروضہ کئی سیاسی بیانات اور مباحثہ کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جس سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہوسکے گا ؟ کیا امریکہ کی پالیسی اور ٹرمپ کی شخصیت اس بات کی اجازت دینگی کہ وہ پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت یا رہنما کی حمایت میں پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں؟ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی مفادات، اور عمران خان کے گرد گھومتے خیالات اور تصورات کو سمجھنے کے لیے ہمیں دنیا میں موجود  سیاست کی بنیادی حقیقتوں اور بین الاقوامی تعلقات کے پیچیدہ فلسفے کے اندر  جھانکنا ہوگا۔ سیاست، چاہے وہ مقامی ہو یا بین الاقوامی، ہمیشہ طاقت، مفادات، اور اصولوں کے گرد گھومتی ہے، اور ان میں سے ہر عنصر اپنی جگہ پر ایک منفرد حقیقت رکھتا ہے اگر ہم عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم برطرفی کے حوالے سے سابقہ حالات کا مشاہدہ کریں تو امریکی انتظامیہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ The Intercept کی رپورٹ کے مطابق، سابق پاکستانی سفیر کے ذریعے ایک خفیہ “سائفر” میں یہ ظاہر کیا گیا کہ امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو نے عمران خان کے روس کے دورے اور یوکرین جنگ پر پاکستان کی “جارحانہ غیرجانبدار” پوزیشن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جوکہ اسوقت پاکستان میں امریکی سفیر ہیں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو “سب معاف کر دیا جائے گا”، بصورت دیگر تعلقات مشکل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان نے اس سائفر کو ایک امریکی سازش کا ثبوت قرار دیا، جس میں ان کے سیاسی مخالفین اور پاکستانی فوج شامل تھی۔ تاہم، امریکی حکومت نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے کسی پاکستانی رہنما کی برطرفی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔

گوکہ اسوقت کی امریکی حکومت نے درپرہ جو کردار ادا کیا اسکے بعد اس ضمن میں اگر ہم غور کریں کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان سب معملات کو ان ڈو کردینگے ایسا ممکن نہیں کیونکہ انکی سیاست ہمیشہ “امریکہ پہلے” (America First) کے اصول پر مبنی رہی ہے۔ ان کی پالیسیوں میں اور انکے سابقہ دور اقتدار  میں بھی ذاتی تعلقات کے بجائے امریکی مفادات کو ہمیشہ اولیت دی گئی ہے ، ٹرمپ نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خطے میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا، جیسے افغانستان میں امن مذاکرات۔ لیکن یہ تعلقات ہمیشہ محدود اور مشروط رہے۔ پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کا مرکز جمہوریت کے فروغ، دہشت گردی کے خاتمے، اور خطے میں استحکام پر رہا ہے، نہ کہ کسی مخصوص سیاسی رہنما یا جماعت کی حمایت۔ امریکہ کے لیے پاکستان میں جمہوریت اور استحکام اہم ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے کبھی ایسی مداخلت نہیں کی جس سے اس کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچے۔ انکا مفاد اسوقت عمران خان کو عہدے سے ہٹانا تھا اور وہ سب کچھ قانونی طریقہ سے ہوا، گو کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تعلقات کے مثبت پہلو بھی موجود ہیں۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم ٹرمپ کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کی کوشیش کیں خاص طور پر افغانستان کے مسئلے پر تعاون کے ذریعے۔ لیکن یہ تعلقات ذاتی سے زیادہ پیشہ ورانہ نوعیت کے تھے، اور ان کا دائرہ کار امریکی مفادات تک محدود رہا ٹرمپ کا عمران خان کی حمایت میں کھڑا ہونا پی ٹی آئے کے ایک کارکن کیلئے ایک خوشگوار تصور تو ہو سکتا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو امریکی خارجہ پالیسی کبھی بھی ذاتی تعلقات پر مبنی نہیں رہی بلکہ یہ ہمیشہ جیوپولیٹیکل اور جیو اکنامک ترجیحات کے تابع رہی ہے۔ جسکو بنانے والے صدر نہیں بلکہ اعلی عہدیدار ہوتے ہیں دوسری جانب اسوقت پاکستان کی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں(  پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) بشمول فوج سب ایک پیج پر ہیں جس سے یہ بات واضح ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں اور آرمی چیف اس وقت آپسمیں شیر وشکر ہیں۔ اور یہ طاقتور اتحاد کسی بھی بیرونی مداخلت کے خلاف مضبوط دیوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ، حتی کہ ٹرمپ بھی، اس حقیقت سے غافل نہیں ہوں گے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کیلئے یہ تصور کہ ٹرمپ پاکستانی سیاست کی بساط پلٹ سکتے ہیں، غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اور طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے لیے امریکی مداخلت ایک غیر معمولی قدم ہوگا، جو امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ گو کہ پاکستان میں جمہوریت کا فروغ امریکی مفادات کے لیے اہم ہے، لیکن حقیقی جمہوریت امریکہ کے لیے ایک چیلنج بھی ہو سکتی ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ ایک مضبوط اور خود مختار پاکستان امریکی اسٹریٹیجک منصوبوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر خطے میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پس منظر میں۔ جبکہ ایران چائنا اور روس کا ٹرائیکا بھی موجود ہے اس ضمن میں عمران خان اور ان کی جماعت کی حمایت میں امریکی مداخلت نہ صرف امریکہ کے اصولوں کے خلاف ہوگی بلکہ اس سے خطے میں امریکی پوزیشن بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ نے ایسے فیصلے کیے جو بظاہر جمہوری اقدار کے برعکس تھے لیکن ان کے پیچھے اسٹریٹیجک مفادات کارفرما تھے۔ یہاں ایک فلسفیانہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا سیاست میں ذاتی تعلقات کی کوئی جگہ ہے؟ اگر ٹرمپ اور عمران خان کے تعلقات کبھی خوشگوار رہے، تو کیا یہ تعلقات کسی ملک کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ میری ذاتی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ امید رکھنا کہ وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کو یکسر بدل دیں گے کسی خام خیالی سے کم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں ذاتی تعلقات ہمیشہ وسیع تر مفادات کے تابع رہتے ہیں۔ ٹرمپ کا “امریکہ پہلے” کا فلسفہ دراصل ان کی شخصیت کی نمائندگی نہیں کرتا، بلکہ اس عالمی نظام کی عکاسی کرتا ہے جہاں قومیں طاقت کے کھیل میں اپنی بقا کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اسی تناظر میں ایک اور فلسفیانہ سوال یہ ابھرتا ہے: کیا بیرونی مداخلت جمہوری اصولوں کے لیے نقصان دہ ہے یا فائدہ مند؟ جیسا میں پہلے کہا کہ ٹرمپ کی پالیسیز ہمیشہ امریکہ کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں، اور پاکستان میں کسی خاص سیاسی جماعت یا رہنما کی حمایت ان مفادات سے متصادم ہو سکتی ہے۔پاکستانی سیاست کے حوالے سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت صرف ایک نظام حکومت نہیں، بلکہ ایک فلسفہ ہے جو عوامی خودمختاری، آزادی، اور مساوات پر مبنی ہے۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ کسی بیرونی طاقت کی حمایت سے جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے، تو یہ دراصل جمہوریت کی بنیادی روح سے بھی انحراف ہوگا۔ عمران خان یا ان کے حامیوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ سیاست میں حقیقی کامیابی عوامی طاقت اور داخلی خودمختاری پر منحصر ہوتی ہے، نہ کہ بیرونی حمایت پر۔اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی بقا اور ترقی داخلی اصلاحات، جمہوری اقدار، اور عوامی حمایت پر منحصر ہونی چائیے ، نہ کہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت پر۔ سیاست میں حقیقی کامیابی کے لیے خود انحصاری اور عوامی طاقت کا ہونا ضروری ہے، نہ کہ بیرونی عناصر پر انحصار۔ یہاں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جہاں طاقت کے توازن کو بدلنے کے لیے محض جذبات یا توقعات کافی نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں فوج، مسلم لیگ نواز، اور پیپلز پارٹی کا موجودہ اتحاد ایک ایسی دیوار ہے جسے کوئی بھی بیرونی مداخلت آسانی سے نہیں گرا سکتی۔ امریکی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بیرونی مداخلت ہمیشہ اس وقت کی گئی جب اس سے امریکی مفادات کو فائدہ پہنچا۔ خواہ وہ ایران، ویتنام، یا مشرق وسطیٰ ہو، امریکی پالیسی کا مرکز ہمیشہ جیوپولیٹیکل اہداف رہا۔ لہٰذا، یہ خیال کہ ٹرمپ پاکستانی سیاست میں کسی ایک رہنما کی حمایت کریں گے، نہ صرف حقیقت سے بعید ہے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیادی فلسفیانہ بنیادوں سے متصادم بھی ہے۔ آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کا یہ کھیل ہمیشہ طاقت اور مفادات کے گرد گھومتا رہے گا، لیکن حقیقی کامیابی ان رہنماؤں کی ہوگی جو عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے بجائے اصولوں، خودمختاری، اور طویل المدتی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی بھی عالمی رہنما سے امید رکھنا ایک وقتی خوش فہمی ہو سکتی ہے، لیکن یہ پاکستان کی جمہوری ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاست کا اصل فلسفہ یہی ہے کہ خود انحصاری اور عوامی اعتماد ہی وہ ستون ہیں جو کسی قوم کو مضبوط اور خود مختار بنا سکتے ہیں۔لہذا، پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی چاہیے اور شارٹ کٹس کے بجائے طویل المدتی منصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہیے۔ ٹرمپ یا کسی دوسرے عالمی رہنما سے حمایت کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ماضی میں ہمارے ساتھ ہوا۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے والے خوب جانتے ہیں کہ جب 1971 میں نکسن انتظامیہ نے خلیج بنگال میں ساتواں بحری بیڑہ روانہ کیا، تو پاکستان کی فوجی قیادت کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ یہ خیال تقویت پکڑ گیا کہ امریکہ مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانے آیا ہے۔ ریڈیو پاکستان پر ہر خبر کا آغاز اسی اعلان سے ہوتا تھا کہ ساتواں بیڑہ ہماری مدد کے لیے کتنا قریب آ چکا ہے۔ لیکن پھر وہ لمحہ آیا جب یہ بحری بیڑہ اچانک اپنا رخ موڑ کر کہیں اور نکل گیا، اور امیدوں کا چراغ بجھ گیا

آج، تحریک انصاف کے کارکنان بھی ایک “سیاسی ساتویں بحری بیڑے” کے انتظار میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں۔ لیکن سیاست میں یہ حقیقت ہمیشہ موجود رہی ہے کہ بیرونی قوتوں پر انحصار محض سراب ہوتا ہے۔ جیسے ماضی میں، ویسے آج بھی، جب یہ “سیاسی بیڑہ” اپنا رخ موڑ لے گا، تو پی ٹی آئی کے کارکنان کو اس صدمے سے دوچار ہونا پڑے گا جو اپنی امیدوں کی بنیاد کسی غیر مرئی مدد پر رکھنے والوں کا مقدر ہوتا ہے۔یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی طاقت اندر سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ کسی بیرونی امداد یا عارضی حمایت سے۔ سیاست میں کامیابی اسی کی ہوتی ہے جو اپنے اصولوں پر کھڑا ہو اور اپنی تقدیر کو خود تراشے، نہ کہ کسی “ساتویں بیڑے” کے انتظار میں اپنی توانائیاں گنوائے۔


اپنا تبصرہ لکھیں