چیئرمین پی ٹی آئی نے پارٹی بند گلی میں دھکیل دی، جمہوری نظام کو بند گلی سے بچانا ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پی ٹی آئی نے پارٹی بند گلی میں دھکیل دی، جمہوری نظام کو بند گلی سے بچانا ہے، بلاول بھٹو


وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی انا کی وجہ سے اپنی پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا، اس کا نقصان اب وہ خود بھگتے لیکن ہم سب پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس بند گلی میں ہمارا پورا جمہوری نظام نہ پھنس جائے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے سیلاب متاثرین کے منصوبوں کے بارے میں تقرری کی اور یقین دہانی کرائی کہ وہ منصوبے بجٹ میں ہوں گے، ہم وزیر اعظم شہباز شریف کے بھی شکر گزار ہیں، یہ وزیراعظم شہباز شریف کے اپنے ہی وعدے تھے، جو ہمیں انشااللہ تعالیٰ پورے ہوتے ہوئے نظر آر ہے ہیں۔

پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کھل کے بات کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، ہمارے ثقافت کی وجہ سے ہمیں بڑوں کا احترام سکھایا جاتا ہے، ہماری سیاست گالم گلوچ، کردار کشی کرنے والی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہوگی کہ مثبت انداز میں سیاست کی جائے تاکہ ہم اس ملک کے مسائل کے حل کی طرف بڑھ سکیں، مگر ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے صحیح نشاندہی بھی ضروری ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ صدر زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں، ہمارا سیاسی یار پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے، اس دائرے میں رہتے ہوئے میں نے بطور پارٹی چیئرمین اپنی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہے، شہباز شریف صرف مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم نہیں، شہباز شریف صاحب شاید زیادہ پیپلزپارٹی کے وزیراعظم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جس نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو ان کے کام کرنے کی اخلاقیات (ورک ایتھکس) ہے، میں نے اس سے بہتر پہلے نہیں دیکھا، اسی کی ضرورت ہے، اگر ہم نے پاکستان کو مسائل سے نکالنا ہے تو دن رات محنت کرنی ہے، دن رات محنت وزیراعظم صاحب تو کر رہے ہیں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم وزیراعظم کے ہاتھ کو مضبوط کریں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم بہت شکرگزار ہیں کہ سیلاب کی تعمیر نو ہے، وہ اب بجٹ میں شامل ہوا ہے، ہمارے لیے بہت مشکل ہوتا، نہ صرف اپنے عوام کو جواب دینا مگر دنیا بھر کو جواب دنیا بھی۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خود کو اس کے مطابق ڈھالنا شروع کرنا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ملک کے مختلف شعبوں میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، اس کے دیگر معاشی فوائد کے علاوہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس حوالے سے ہم نے دنیا کیے اپنے وعدے بجٹ میں پورے نہیں کیے تو دنیا کے سامنے ہماری کوئی ساکھ نہیں رہے گی، ہمیں ملک کو گرین انرجی ریولوشن کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ملک سے باہر اور ملک کے اندر ساکھ کو برقرار رکھنا ضروری ہے، وہ ساکھ اس وقت ہی برقرار رہ سکتی ہے جب ہم اپنے عوام سے سچ بولیں، اگر سچ نہیں بولیں گے تو ان کا اعتماد ہم نے اٹھ جائے گا، اس حکومت کے آنے سے قبل ایک ایس وزیراعظم موجود تھا جس کی سیاست ہی جھوٹ تھی، اس کا فرض تھا کہ ہر بیان میں جھوٹ بولنا ہے، اس پروپیگنڈے کی حکمت عملی یہ تھی کہ 100فیصد جھوٹ بولو، اس میں نے 50 فیصد جھوٹ کو لوگ تسلیم کرلیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پورے نظام کو، عالمی سطح پر مالیاتی ادارے کے ساتھ بھی ہمیں دھچکا لگا، اب ہم جھوٹ پر مبنی مقبولیت کی سیاست کی صورتحال پر قابو پالیں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں بھی ایک سیاست دان اسی طرح کی سیاست کر رہا تھا لیکن جب اس نے اداروں پر حملہ کیا تو ان سب کے خلاف ایکشن ہونا شروع ہوگیا، اس فیس بک، ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کردیے گئے لیکن ہم تو امریکا سے زیادہ جمہوری لوگ ہیں، ہم نے تو اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند نہیں کیے، انہوں نے آئین توڑا، ہمارے ادارے پر حملہ لیا، ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم نے بہت کچھ برداشت کیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی سازش تو ناکام ہوئی لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کہیں یادگار شہدا کو جلایا گیا ہو، جناح ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا، فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، اگر برطانیہ میں ایم آئی سیکس کے دفتر پر، امریکا میں پینٹاگون پر حملہ کیا جائے تو کیا وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ان حملوں پر، اس دہشت گردی پر جو رد عمل آیا ہے وہ قدرتی عمل ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ جذباتی رد عمل ہے، اگر ہمارے یادگار شہدا پر حملہ کیا جائے گا تو ہم جذباتی ہی ہوں گے، یہ جو غلط ملومات سیاسی بنیادوں پر پھیلایا جا رہا ہے، کل تک جو لوگ جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین نہیں رکھتے تھے، جو آئین کو کاغذ کا ٹکرا سمجھتے تھے، وہ آج اسی جمہوریت اور انسانی حقوق کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر اس طرح اداروں پر حملوں کی اجازت دے دی گئی تو پھر یہ ملک نہیں چل سکے گا، اس سے ہمار ساکھ بحال نہیں ہوگی، نہ ہی سیاسی استحکام آئے گا اور اگر سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو پھر معاشی استحکام اور ترقی بھی نہیں آٗے گی۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہمیں مہذب اور ذمے دار سیاسی اپوزیشن کی ضرورت ہے، غیر ذمے دارانہ اپوزیشن نقصان پہنچاتا ہے۔

انہوں نے 9 مئی کے واقعات کے بعد میں نے کئی مرتبہ کہا اور ان کو پیغام دیا کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں، ان سے اظہار لا تعلقی کریں، معافی مانگیں لیکن ان کا قائد سے اپنی ضد پر کھڑا ہوا ہے، اپنی انا کی وجہ سے اس نے اپنی پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے، وہ نقصان اب وہ بھگتے لیکن ہم سب پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان نے اپنی جماعت کے لیے جو اس بند گلی کا بندوبست کیا ہے، اس بند گلی میں ہمارا پورا جمہوری نظام نہ پھنس جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس بند گلی کا نقصان صرف ان لوگوں تک محدود رہے جو غیر جمہوری پوسٹ فیکٹ سیاست میں ملوث تھے، اس کا نقصان میثاق جمہوریت کے مطابق ہمارے اتفاق رائے کو نہ ہو جو کہ ملک میں سیاسی استحکام برقرار رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے، ہمیں معاشی استحکام کے ساتھ سیاسی استحکام کا روڈ میپ بھی پیش کرنا ہے، قوم کے سامنے الیکشن کا رود میپ سامنے لانا ضروری ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں