وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے کہا ہے کہ ہم پیٹرولیم مصنوعات پر اپریل کے مہینے میں 68 ارب روپے سبسڈی کی سمری منظور کی ہے، اوگرا نے آئندہ مہینوں 96 ارب روپے کی سبسڈی تخمینہ لگایا ہے، یہ سبسڈی ہم برداشت نہیں کرسکتے، وزیر اعظم کو اس پر فیصلہ کرنا ہوگا۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل جب 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تھی تو پاکستان کی نمو کی شرح 6.8 فیصد تھی، پہلے سال ہی انہوں نے کہ نمو کی شرح 1.9 فیصد کردی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9.1 فیصد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت چھوڑ کر گئے تھے تو شرح نمو 6.8 فیصد تھی لیکن اب بھی عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ آئندہ سال شرح نمو 4 فیصد ہوگی، مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد تھی، مارچ مہینے میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد رہی ہے جبکہ سی پی آئی میں افراط زر کی شرح 17.3 فیصد ہے۔
مفتاح اسمعیل نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اوسطاً بجٹ خسارہ ایک ہزار 600 ارب روپے تھا، صرف رواں سال عمران خان کی حکومت کا بجٹ خسارہ تقریباً 5 ہزار 600 ارب روپے ہوگیا ہے، عمران خان یہ حکومت چھوڑ کر گئے ہیں۔
سابق حکومت کی کارکردگی کا ذکر جاری رکھتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولی کی شرح 11.1 فیصد کی جگہ 9.1 فیصد پر آگئی ہے، عمران خان نے پونے 4 سال میں 20 ارب ڈالر سےبھی زیادہ قرض لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آزادی سے اب تک جتنے وزیر اعظم آئے ان سب نے مجموعی طور پر 25 ہزار ارب روپے قرض لیا تھا لیکن عمران خان اکیلے نے 20 ہزار ارب روپے قرض لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خان صاحب کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی کے سبب قرض میں اضافہ ہوا ہے، عمران خان کہا کرتے تھے ایک روپیہ ڈی ویلیو ہوتا ہے تو قرض میں 100 ارب اضافہ ہوجاتا ہے، ان کے زمانے میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 70 روپے کمی آئی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام تک ساڑھے 5 کروڑ لوگ خطِ غربت کے نیچے تھے اس میں عمران خان نے مزید 2 کروڑ افراد کا اضافہ کیا ہے، اور آج ایک کروڑ 35 لاکھ بچے جو مفلسی میں ہیں وہ عمران خان کی ناقص پالیس کی وجہ سے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے برآمدات بڑھائی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ درآمدات بڑھی ہے لیکن برآمدات سے زیادہ درآمدات بڑھی ہے، رواں سال پاکستان تاریخ رقم کرتے ہوئے 75 ارب ڈالر کی درآمدات کرے گا، اور برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہوگی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ مسلم لیگ (ن) کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ چھوڑ کر گئی تھی یہ بات درست ہے سی پیک کی وجہ نئے پلانٹ اور مشنری آرہی تھی اس وجہ سے خلا زیادہ تھا، لیکن خان صاحب نے اس میں بھی اضافہ کیا۔
مفتاح اسمعیل نے کہا کہ پاکستان کے بیرون ملک میں موجود اثاثے 10 ارب ڈالر سے زیادہ تھے، گزشتہ دنوں اسد عمر نے ٹوئٹ کیا کہ یہ گزشتہ50 فیصد کم ہوگئے ہیں، انکا یہ خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے کم ہوئے، لیکن جو ادھار پہلے لیا تھا اس سے تحریک عدم کا کیا تعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایس ایل جی پی ایل میں 200 روپے سے زیادہ نقصان کیا، 500 ارب سے زیادہ پی ایس او کی موصلات ہوچکی ہیں، مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہونے پر ایک ہزار 63 ارب روپے سرکلر ڈیڈ تھا، آج وہ لگ بھگ 25 سو ارب روپے ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں گیس کے شعبے میں کوئی سرکلر ڈیڈ نہیں تھا لیکن آج کی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ گیس سیکٹر میں بھی ایک ہزار 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیڈ ہے، ایس این جی پی ایل اور پی ایس او کی لیکویڈیٹی کے لیے ہمیں انہیں پیسے دینے پڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر جو سبسڈی دی گئی اس میں حکومت پاکستان کو 3 سو ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اور اسکی کابینہ سے کوئی منظوری بھی نہیں دی گئی تھی۔
پاور پلانٹس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ساڑھے 7 ہزار میگا ووٹ پاور پلانٹس بند رکھے ہوئے ہیں، اس لیے ملک بھر لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، 5 ہزار 500 میگاواٹ اس لیے بند ہیں کہ وہاں فیول اور قرضوں کے مسائل کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 200 ہزار میگاواٹ اس لیے بند ہیں کہ وہاں مرمت نہیں کی گئی۔
مفتاح اسمعیل نے کہا کہ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ یہ حکومت زیادہ نا اہل تھی یا زیادہ بد عنوان تھی، اس کی نا اہلی پر سلام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ انہوں نے یوریا اسمگل کروائی حالانکہ یوریا کی پیداوار کے لیے 30 ارب ڈالر کی گیس 2 ارب ڈالر پر فراہم کی جاتی ہے، اس پر انکوائری کے لیے وزیر اعظم نے فی الفور کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے گندم بھی اسمگل کروایا، جس ہمارے کسان کو فائدہ ہوا نہ ہی ہمارے صارف کو بلکہ یہ ملک گھاٹے میں رہ گیا۔
آئی ایم ایف پروگرام بحال کریں گے، مفتاح اسمعیل
ان کا کہنا تھا کہ آج رات کو مجھے آئی ایم ایف جانا پڑے گا جاتے جاتے عمران خان صاحب آئی ایم ایف سےمذاکرات کر کے آئے تھے اور پھر مکر گئے اپنے دوستوں کو ایک اور ایمنسٹی دینے کے ساتھ اور بھی بڑے تحفے تحائف بانٹ کر چلے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پُر اعتماد ہوں کہ ہم آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کریں گے، جو کرنا ہوگا کریں گے، مجھے امید ہے کہ اب روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں آئے گی، ہم عوام دوست بجٹ پیش کریں گے، پاکستان کی مارکیٹیوں میں بہتری آئے گی اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
ایک سوال کے جواب میں مفتاح اسمعیل کا کہنا تھا کہ میری پاکستان کی عوام سے اتنی گزارش ہے کہ ہمیں 3،4 مہینے کا وقت دیں، پچھلی حکومت بار بار ایل این جی خریدنا بھول جاتی تھی اور ہمارے طویل المدتی منصوبے انہیں برے لگتے تھے۔
وزیر خزانہ نے پیٹرول مصنوعات پر سبسڈی جاری نہ رکھنے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اپریل میں اوگرا کا تخمینہ ہے کہ مئی اور جون کے مہینے میں 96 ارب روپے کا خرچہ ہوگا اپریل میں سبسڈی کی مد میں 69 ارب روپے خرچہ ہوا، اس لیے یہ سبسڈی ہم برداشت نہیں کرسکیں گے اس لیے وزیر اعظم کو اس فیصلہ کرنا ہوگا لیکن یہ فیصلہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد ہوگا۔
وزیر اعظم نے ماہِ رمضان میں ریلیف پیکج فراہم کیا ہے، مریم اورنگزیب
اس موقع پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالا ہے وہ دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے کہ کس طرح پاکستان کی عوام کو مہنگائی سے بچایا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سال میں جو مہنگائی کی گئی اس کے اثرات نہ صرف پاکستان کی معشیت بلکہ ہر پاکستانی کی جیب پر پڑے، ان مسائل کا حل حکومت اور اتحادیوں کی اولین ترجیح ہے۔
اجلاس کا احوال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں وزیر خزانہ نے مہنگائی اور ملک کے معاشی حالات پر کابینہ کو بریفنگ دی، توانائی کے سیکٹر کے حوالے سے بھی کابینہ کو بریفنگ دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ماہِ رمضان میں 10 کلو آٹے کا تھیلا 550 کے بجائے 400 روپے کردیا گیا ہے جس کی کابینہ نے منظوری دی ہے جبکہ چینی کی قیمت بھی 80 روپے سے70 روپے کردی گئی ہے، رمضان کے مہینے میں بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بھی سبسڈی یقینی بنائی جائے گی، اس کی مانیٹرینگ وزیر اعظم خود کریں گے۔
شفاف ای سی ایل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، مریم اورنگزیب
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا دسمبر 2020 میں ایک ای سی ایل کمیٹی بنائی گئی تھی جس مقصد سیاسی مخالفین کا انتقام لینا تھا، لیکن اب ایک شفاف کمیٹی بنادی گئی ہےجس کی سربراہی اعظم نذیر تارڑ کریں گے۔
یہ کمیٹی ای سی ایل کے رولز کا جائزہ لے کر کابینہ کو پیش کریں گے اور اس قانون کے استعمال کے حوالے سے بریفنگ دیں گے اور تین روز میں کمیٹی رپورٹ پیش کرے گی۔
پچھلی حکومت کی جانب سے ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کیا گیا، عمران خان سے شہباز شریف سےزاتی عناد کی وجہ سے اداروں کو استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ محمد طاہر رائے کو ڈی جی ایف آئی اے تعینات کیا ہے۔