پنجاب یونیورسٹی سے بلوچ طالب علم کو اٹھا لیا گیا

پنجاب یونیورسٹی سے بلوچ طالب علم کو اٹھا لیا گیا


پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کے گیٹ نمبر ایک سے ایک بلوچ طالب علم کو پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افراد نے جمعہ کو حراست میں لے لیا، جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں، طلبہ اور بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے احتجاج اور اظہار مذمت کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بی ایس ایجوکیشن کے آٹھویں سمسٹر کے طالب علم اور بلوچ کونسل کے رکن فرید حسین بلوچ کو مرکزی دروازے سے کیمپس کے باہر جاتے ہوئے 2 پولیس اہلکاروں اور سادہ لباس میں ملبوس 2 دیگر افراد نے روکا۔

فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طالب علم نے گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کی، مگر پولیس اہلکاروں نے اسے مارا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ایک نجی کار میں ڈال دیا، جب پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افسران اسے گرفتار کرنے کے لیے کیمپس میں داخل ہوئے تو پنجاب یونیورسٹی کے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مداخلت نہیں کی گئی۔

بلوچ کونسل کے عہدیداران گارڈن ٹاؤن پولیس تھانے پہنچے، جہاں فرید حسین کو زیر حراست رکھا گیا تھا۔

انہوں نے ڈان اخبار کو بتایا کہ پولیس نے طالب علم کو حراست میں لینے کی وجہ نہیں بتائی اور نہ ہی ان کو ملاقات کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پولیس اس بلوچ طالب علم کو کسی جھوٹے اور من گھڑت مقدمے میں پھنسا سکتی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے کوئی بھی ان کو گرفتاری کی وجہ بتانے پر آمادہ نہیں ہے۔

بلوچ طالب علم کی گرفتاری سے سوشل میڈیا پر غم و غصہ پھیل گیا، طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پی ایس سی پنجاب یونیورسٹی سے فرید حسین کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے، ایسے عمل تعلیم کے حصول میں خلل ڈالتے ہیں اور ناقابل قبول ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ان رپورٹس پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ پشتون اور بلوچ طلبہ کو قانون نافذ کرنے والے ادارے گزشتہ چند دنوں سے لاہور کی یونیورسٹی میں ہراساں کر رہے ہیں، انہیں ڈرا رہے ہیں، اور تقریبا 2 طلبہ جبری طور پر گمشدہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے طلبہ خاص کر پنجاب میں غیرمحفوظ ہیں، انہیں نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنانے کے عمل کو ختم ہونا چاہیے، تمام طالب علموں کو ہراسگی اور جبری گمشدگی کے خوف کے بغیر تعلیم کے حصول اجازت ہونی چاہیے۔

دریں اثنا، ماڈل ٹاؤن ڈویژن کی سپراٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) آپریشنز عمارہ شیرازی اور ایس پی (تفتیش) شہزاد رفیق اعوان اس معاملے پر رائے دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔


اپنا تبصرہ لکھیں