اس بار پاکستان جانے کا اتفاق ہوا امریکہ سے دبئی اور پھر کراچی ایک دن قیام کے بعد اپنے دوستوں اور کزن توصیف خان،وسیم خانزادہ،وسیم تنولی،فیصل انوار کے ہمراہ خوبصورت وادیوں اور سرسبز زمین سے مالا مال زمین ناران ، کاغان اور ان پہاڑیوں پر سجی جھیل سیف الملوک جانے کیلئے اسلام آباد اور وہاں سے ابیٹ آباد کا سفر کیا ایبٹ آباد میں ہمارے میزبان وسیم تنولی تھے جو کہ کراچی میں کاروبار کرتے ہیں اور کراچی سے ہی ہمارے ساتھ ہمسفر ہوئے جبکہ ہم جیتنے دن وہاں مقیم رہے انہوں نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لمحہ بہ لمحہ وہ ہماری مہمان نوازی میں مصروف رہے،ان کے کزن پولیس انسپکٹر سلیم رشید بھی ہماری میزبانی میں پیش پیش تھے،ناران کاغان کی پہاڑیوں پر پر خطر ڈرائیونگ بھی انہوں نے انتہائی مہارت سے سر انجام دی ایبٹ آباد سے ناران اور پھر کاغان کا سفر او تمام تر راستہ قدرتی نظاروں سے بھر پور تھا۔پورے راستے آلودگی سے پاک پر فضا مقام اور قدرتی نظاروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلسہ تھا اور میں تو اس سحر انگیزی میں گم سا ہو کر رہ گیا سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اس سر زمین کو کتنا خوبصورت بنایا ہے۔دل چاہ رہا تھا کہ ہر منظر دیکھوں اور وہاں پرنظریں ساکت ہو جائیں اور زندگی کی سانسیں تھم جائیں۔دیو مالائی وادیوں اور پہاڑوں کے درمیان جگہ جگہ قدرتی پانی کے جھرنے اور آبشاریں جسم میں تازگی کا احساس پیدا کر رہیں تھیں سفر کے دوران راستے میں بہتا ہوا تیز و تند دریا جس کو وہاں کے لوگ خونی دریا کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں وہ کبھی ہمارے دائیں اور کبھی بائیں ہو جاتا قدرت کی یہ خوبصوتی میری روح میں جیسے جان ڈال رہی تھی یہ نظارے جو کہ صدیوں سے وہیں پر ٹھہرے ہوئے تھے سرسبز گھاس اور پھولوں سے لدے لمبے لمبے درخت ہر طرف ہریالی ہی ہریالی جو کہ آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی بالا کوٹ سے شوگراں کا سفر تو حسین نظاروں سے بھر پور ہے۔گو کہ وہاں گرمی کی شدت ابھی موجود تھی تاہم تسکین دینے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم میں ٹھنڈک کا احساس دلا رہے تھے۔اور وہ گرمی کی تپش کو ٹھنڈے احساس میں تبدیل کر رہے تھے۔
ہم نے وہاں پر موجود ایک دو جھیلوں کو دیکھا لیکن یہاں آنے کا مقصد خوابوں کی اس جھیل سیف الملوک کو دیکھنا تھا جو کہ عرصہ دراز سے میرے ذہن میں موجود تھی اس لیے ہم نے چودہویںکی رات کو وہاں بسر کرنے کا فیصلہ کیا رات کا سفر ہم نے جیپ کے ذریعہ طے کیا جیپ کا ڈرائیور انتہائی مہارت سے گاڑی چلانے میں مصروف تھا تاہم مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب پتہ چلا کہ تین کلو میٹر کے بعد مزید راستہ پختہ نہیں ہے یقین جانیئے پتھروں اور پہاڑوں کے راستہ پر چلتے ہوئے بس ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جیپ اگلے ہی لمحے میں گہری کھائی میں جا گرے گی خوف کے باعث میری آنکھیں خود بخود بند ہوتی جاتی تھیں جس پر میرے ساتھی میرا مذاق بھی بنا رہے تھے ۔میں اس وقت دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم نے کیوں رات کے سفر کا ارادہ کیا ہے تاہم جو بھی ہوتا اس وقت میں نے اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیا دوران سفر ہماری جیپ نے جب برفانی گلئشیر کو کراس کیا تو جیپ کا شیشہ فوگ کے باعث بالکل دھندلا پڑ گیا مجھے تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا لیکن کمال پھرتی سے ڈرائیور نے دو کٹ لگانے کے وہ گلیشئر بھی عبور کر لیا بعد میں جیپ سے پچھے مڑ کر جب میں نے دیکھا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اگر ڈرائیور کی ذرا سی غلطی کر لیتا تو ہم کچھ لمحہ پہلے کسی کھائی میں پڑے ہوتے۔بہر کیف کچھ دیر ہم خوبصورتیوں سے مالا مال جھیل سیف الملوک پہنچ گئے ہوٹل میں کمرہ لینے اور چائے پینے کے بعد کچھ جان میں جان آئی۔چاندنی رات کی روشنی میں ہم نے بالاآخر جھیل کا قریب سے جا کر نظارہ کیا آسمان پر نکلا چاند ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جھیل کے اندر اتر آیا ہو اتنا پر سکون منظر میں نے شاید پہلے کبھی نہیں دیکھا۔پیالہ نما جھیل جس کی خوبی یہ ہے کہ وہ موسموں اور دن اور رات کے ساتھ ساتھ اپنے رنگ میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جبکہ اردگرد بلند و بالا پہاڑ پیالہ نما جھیل کے پانی پر اپنا سایہ ہر وقت پھیلائے نظر آتے ہیں۔مقامی لوگوں اور دوستوں نے بتایا کہ چاندنی رات میں یہ مشہور ہے کہ چودہویں کی رات اس جھیل پر پریاں اترتی ہیں جبکہ مقامی کئی لوک جھیل سے متعلق رمانوی کہانیاں سنا کر اس کی سحر انگزیزی میں مزید اضافہ کرتے نظر آتے ہیں ساڑھے دس ہزاز فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کا نظارہ کرنے کے بعد کچھ دیر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اس جھیل کو دیکھنے کی تمنا بچپن سے ہی تھی تاہم کبھی ایسا موقع نہیں ملا کہ وہاں سیرکیلئے جایا جائے۔تاہم جس طرح رومانوی کہانیاں اس جھیل کے بارے میں سنی تھیں یہاں آ کر مجھے ان کہانیوں کا بخوبی احساس ہو رہا تھا کہ آخر یہ کہانیاں کیوں کر بنائی گئیں ہیں۔جھیل کا ماحول دیکھ کر ان اس طرح کی کہانیوں پر بھی یقین کرنے کو دل کرتا ہے جو کہانیاں ہم نے سنی اس کے مطابق چودہویں کی رات کو یہاں پریاں اترتی ہیں۔اس ضمن میں شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی کہانی اس جھیل سے منسوب کی جاتی ہے اور ہم نے دوسرے دن وہاں کے ایک مقامی شخص سے وہ کہانی بھی سنی جس میں سحر انگریزی جنوں اور پریوں کے قصہ اس کو جھیل دیومالائی بناتے تھے۔اس جھیل کے بارے میں کہانی سانے والے کا کہنا تھاکہ چونکہ یہ جھیل قدرتی حسن و جمال کا ایک شاہکار ہے اس لیے شہزادہ سیف الملوک اور کوہ قاف کی پریوں کی شہزادی بدی جمال کا ذکر صدیوں سے کیا جاتا ہے تاہم مجھے یہ سب کچھ حقیقت سے زیادہ افسانہ معلوم ہوتا ہے مقامی شخص نے ہمیں بتایا کہ سیف الملوک مصر کا شہزادہ تھا جو کہ روزانہ پری بدیع الجمال کو خواب میں دیکھتا تھا جبکہ وہ اس پر اپنا دل ہار جاتا ہے جس کے بعد وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے بعدازاں اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اس جھیل کے کنارے 12سال تک عبادت کرئے تو اس کو وہ پا لے گا جس کے بعد شہزادہ بارہ سال وہاں گزار دیتا ہے تو یہ بارہ سالوں بعد چاند کی چودہویں کی رات کو اس کی ملاقات اس پر پری سے ہو جاتی ہے یہ کہانی مزید طویل ہے جس کا ذکر اس کالم میں ممکن نہیں۔
بہر کیف صبح کے وقت ہم نے جھیل کے اندر اور پہاڑیوں کے اوپر سورج نکلتے بھی دیکھا خچر کے ذریعہ جھیل کے اطراف سواری بھی کی دلکش مناظر جھیل کا نیلا پانی اور اس میں تیرتے ہوئے بادل اپنی خوبصورتی اور جوبن کے حسین نظارے روح میں خوشگوار احساس بیدار کررہے تھے جبکہ اور روح کو ایک عجیب سکون سا حاصل ہوتا ہے جو کہ آپ کو کچھ دیر کیلئے زندگی سے بے گانہ کر دیتا ہے یہ جھیل واقعی رب کی جانب سے دی گئی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس دیو مالائی وادی میں پہنچنے کے بعد لمبا سفر اور اس سے منسلک تھکاوٹ ان نظاروں کو دیکھ کر تو ختم ہو گئی۔اس ضمن میں اس حوالہ سے اپنے قارئین کی توجہ میں ایک جانب مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جھیل خیبر پخونخواہ کے علاقہ میں ہے۔جہاں پر اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ہے،پی ٹی آئی اس صوبہ میں اب کئی دہائیوں سے حکمران ہے لیکن یہاں آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی صرف اور صرف چہروں کی تبدیلی واقعی ہوتی ہے ہمارے ساتھ جھیل سیف الملوک آنے والے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ جھیل جانے کیلئے تین کلو میٹر روڈ پختہ ہے جبکہ دیگر روڈ پتھروں پر بنا ہوا ہے جس کی مرمت کا کام یہاں آنے والے جیپ کے ڈرائیور آپس میں چندہ جمع کر کے کرتے ہیں حکومت کا اس ضمن میں کوئی دھیان نہیں ہے۔یہ وادی اور جھیل پوری دنیا کی مشہور و معروف جھیل ہے جہاں پر حکومت آنے والے افراد کیلئے آسانیاں پیدا کر کے سیاحت کو مزید فروغ دے سکتی ہے۔لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے او بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت جس سے نوجوانوں نے کافی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں وہ بھی ناکام نظر آتی ہے میں نے کئی مقامی افراد سے اس ضمن میں بات کی وہ بھی مجھے اس حکومت سے مایوس نظر آئے او مجھے بھی یہ جان کر حیرت ہوئی کہ تبدیلی کے نام پر آنے والی خیبر پخونخواہ کی یہ حکومت جہاں پر وہ برسراقتدار بھی ہے حکومت میں آنے کے بعد بھی اپنے صوبہ میں کوئی بڑی تبدیلی لانے میں اب تک ناکام ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اگر عمران خان وفاقی حکومت میں آ بھی جاتا ہے تو وہ کس طرح عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں بہا کر دے گا حالانکہ ان کی ہی پارٹی یہاں برسراقتدار ہو کر بھی وہ کام نہیں کر سکی جو کہ اس صوبہ میں خوشحالی اور انقلاب کا باعث بن سکتی تھیں۔