لاہور:
اس ضمن میں کئی برس تک بالخصوص صوبہ پنجاب کے کھیتوں سے مٹی کے نمونے دیکھے گئے تو معلوم ہوا کہ مٹی میں نائٹروجن کی سطح 98 فیصد، فاسفورس کی 90 فیصد، پوٹاشیئم کی کمی 53 فیصد اور زنک کی کمی 70 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے۔ اس طرح پورے ملک میں کئی ٹیوب ویل کا سروے کیا گیا اور معلوم ہوا کہ ان کی 66 فیصد تعداد سے لیا ہوا پانی خود زراعت کے لیے موزوں نہیں۔
اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت کا محکمہ زراعت کو ایک سروے کے احکامات دیئے جسے ’سوئل سیریز سروے‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں مٹی کے ایسے نمونے دیکھے جاتے ہیں جو مرکزی مٹیریل سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
پنجاب میں علاقائی درجہ بندی یا زوننگ اب 40 برس بعد کی گئی ہے اور اس کے بعد حیاتیاتی اہمیت والے علاقوں (ایکولوجیکل زون) کی تعداد 8 سے بڑھ کر 13 ہوچکی ہے۔ ماہرین نے منڈی بہاء الدین اور ننکانہ کےعلاقوں میں کپاس کے علاقوں میں گنے کی کاشت روکنے اور درمیانی علاقوں میں چاول کی کاشت محدود کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
مٹی کے ابتدائی نمونوں کو دیکھ کر معلوم ہوا ہے کہ سال 2000ء میں پنجاب کی زرعی مٹی میں نامیاتی مواد کا تناسب 0.75 تھا جبکہ اب وہ گھٹ کر 0.60 پر جاپہنچا ہے۔ پیٹ منرل سوئل مکس ( پی ایم ایم) میں فاسفورس کی شرح 9.85 سے 8.6 پر آگئی ہے۔ مٹی میں پوٹاشیئم کی اوسط مقدار 236 حصے فی 10 لاکھ سے 90 حصے فی 10 لاکھ تک آچکی ہے جو ایک نمایاں کمی ہے۔
ماہرین کے مطابق مٹی میں نامیاتی مادوں کی مقدار کم ہونے سے ہی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ماہرین نے بتایا کہ کسانوں کی اکثریت زمین کی زرخیزی بڑھانے والی مصنوعی کھاد اور اجزا خریدنے سے قاصر ہے اور اسی بنا پر مٹی کی نامیاتی زرخیزی تیزی سے کم ہورہی ہے جو اب ایک خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔