پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے مئی میں صارفین سے 32 ارب روپے ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) اور 42 ارب روپے سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) کے طور پر وصول کرکے 74 ارب روپے اضافی طلب کیے ہیں۔
سابق واپڈا پاور کمپنیوں نے 3.16 روپے فی یونٹ کی یکساں شرح پر اضافی ایف سی اے کی منظوری کے لیے مشترکہ پٹیشن دائر کی ہے جو انہوں نے مارچ میں صارفین کو فروخت کیے تاکہ تقریباً 32 ارب روپے کما سکیں، انہوں نے اکتوبر-دسمبر 2021 کے لیے کیو ٹی اے کے طور پر 41.98 ارب روپے کی مشترکہ اضافی آمدنی کے لیے علیحدہ درخواستیں دائر کی ہیں۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 27 اور 28 اپریل کو دو الگ الگ عوامی سماعتیں بلائی ہیں تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ آیا ان ڈسکوز کے ایف سی اے اور کیو ٹی اے کے مطالبات جائز تھے یا نہیں۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے ان تمام ڈسکوز کی جانب سے تقریباً 32 ارب روپے کے اضافی فنڈز پیدا کرنے کے لیے مارچ میں فروخت ہونے والی بجلی کے لیے ایف سی اے میں تقریباً 51 فیصد اضافہ کر کے قیمت 9.4 روپے فی یونٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سی پی پی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ مارچ میں صارفین سے حوالہ ایندھن کی قیمت 6.23 روپے فی یونٹ وصول کی گئی تھی لیکن اصل قیمت 9.4 روپے فی یونٹ نکلی، اس لیے صارفین سے تقریباً 3.16 روپے فی یونٹ اضافی چارج کیا گیا۔
ایک بار منظور ہونے کے بعد بجلی کے بلند نرخ اگلے بلنگ مہینے (مئی) میں تمام صارفین سے وصول کیے جائیں گے، ماسوائے ان شہریوں کے جو ماہانہ 50 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔
مارچ میں ایندھن کی قیمت
نیپرا کے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی قیمت گزشتہ ماہ 66.2 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ 9.22 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق ایندھن کی مجموعی قیمت میں تیزی سے اضافہ جزوی طور پر اسی عرصے کے دوران بین الاقوامی کوئلے کی قیمتوں میں 388 فیصد اضافے کی وجہ سے تھا۔
مارچ میں پیدا ہونے والی بجلی کے ہر چار میں سے ایک یونٹ کو کوئلہ جلا کر حاصل کیا گیا، کوئلے پر مبنی بجلی کی فی یونٹ لاگت ایک سال پہلے کے مقابلے میں 71 فیصد زیادہ 12.41 روپے رہی۔
اسی طرح درآمدی گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت سالانہ بنیادوں پر 58 فیصد بڑھ کر 14.37 روپے فی یونٹ ہوگئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر گیس کی قیمتوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا، مارچ میں بجلی کی کل پیداوار میں درآمدی گیس کا حصہ تقریباً 19 فیصد تھا۔
فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت سالانہ بنیادوں پر 89 فیصد بڑھ کر 22.50 روپے فی یونٹ ہو گئی، یہ پچھلے مہینے ایندھن کا سب سے مہنگا ذریعہ تھا، بجلی کی کُل پیداوار میں اس کا 10.6 فیصد حصہ تھا جبکہ ایک سال پہلے یہ حصہ 2.6 فیصد تھا۔
ہائیڈل پر مبنی جنریشن میں 2.1 فیصد کی کمی نے بھی ایندھن کی اوسط لاگت میں مجموعی اضافے میں اہم کردار ادا کیا، نیوکلیئر پاور پلانٹس نے مجموعی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں مدد کی کیونکہ اس کی فی یونٹ کی شرح سال بہ سال برابر رہی، پاور مکس میں اس کا حصہ ایک سال پہلے 10.5 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 15 فیصد ہوگیا ہے۔
ونڈ پاور کا حصہ بھی مارچ 2021 میں 1.9 فیصد سے بڑھ کر گزشتہ ماہ 2.6 فیصد ہو گیا جبکہ بیگاس، سولر اور دیگر کا حصہ بالترتیب 1 فیصد، 0.7 فیصد اور 0.4 فیصد پر رہا، مقامی گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 7.80 روپے فی یونٹ ہے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے، پاور مکس میں اس کا حصہ مارچ 2021 میں 11.6 فیصد کے مقابلے میں 9.5 فیصد تھا۔
مارچ میں بجلی کی کل پیداوار سالانہ بنیادوں پر 16.2 فیصد بڑھ کر 14 ہزار میگاواٹ ہوگئی۔