سوئزرلینڈ: ٹی بی (تپِ دق) کا مرض پوری دنیا کے لیے ایک وبا بنا ہوا ہے۔ اب اس ضمن میں ایک ویکسین تیار کی گئی ہے جس کے انسانوں پر اچھے اثرات برآمد ہوئے ہیں۔ اگر لوگوں کی بڑی تعداد پر کی گئی آزمائش سے مزید مثبت نتائج نکلتے ہیں تو ایک خوفناک جان لیوا مرض سے بچنا ممکن ہوجائے گا۔
پوری دنیا میں ٹی بی ہلاکت خیز 10 بڑی بیماریوں میں شامل ہے اور گزشتہ برس 15 لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے۔ اس ضمن میں بچوں کے تحفظ کے لیے بی سی جی ویکسین دی جاتی ہے لیکن اب تک بڑوں کے لیے ویکسین موجود نہ تھی۔
اس ویکسین کو M72/AS01E کا نام دیا گیا ہے جسے گلیکسو اسمتھ کلائن نے ایرس نامی ادارے کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ کینیا، زیمبیا اور جنوبی افریقہ کے 3575 افراد پر اس کی آزمائش کی گئی ہے۔ ان تمام افراد میں ٹی بی کے جراثیم موجود تھے جنہیں امنیاتی قدرتی نظام نے بے اثر کردیا تھا اور مرض پیدا کرنے سے قاصر تھے۔ اس کیفیت کو انگریزی میں لیٹنٹ ٹیوبرکلوسِس کہا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور جن میں سے نصف کو ویکسین اور بقیہ آدھے افراد کو فرضی دوا ’پلے سیبو‘ دی گئی۔
پھر تمام افراد کا تین برس تک جائزہ لیا گیا تو ویکسین نہ کھانے والوں کے مقابلے میں دیگر افراد کی 50 فیصد تعداد میں ٹی بی کا مرض نمودار ہوا۔ اگرچہ ویکسین کی قوت اصل ویکسین کے مقابلے میں آدھی تھی لیکن وہ ٹی بی روکنے میں کارگر ثابت ہوئی اور خوابیدہ ٹی بی کے جراثیم کو اٹھنے ہی نہ دیا۔ اس طرح یہ ویکسین بہت اہم کردار ادا کرتے ہوئے ہر سال لاکھوں افراد کی جانیں بچاسکتی ہے۔
تاہم اس سے پہلے بہت بڑی تعداد میں لوگوں پر اس کے ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ٹی بی کے خطرے سے دوچار ممالک ( جن کی اکثریت غریب ممالک میں رہتی ہے) میں ایسی ویکسین نہایت کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر اس کی افادیت صرف 50 فیصد ہے تب بھی یہ ٹی بی جراثیم رکھنے والے آدھے افراد کی زندگی بچاسکتی ہے۔