ٹرمپ کی مقبولیت کا گرتا ہوا گراف اور آنیوالے مڈٹرم انتخابات


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اقتدار کی باگ دوڑ سنھبالی تو ان کی مقبولیت کی شرح 40فی صدی تھی اس طرح سابق صدر باراک اوباما نے 2009میں جب اقتدار اسنھبالا تھا تو اس کے مقابلے میں ٹرمپ کی شرح نصف تھی جبکہ اوباما جب اول ہائوس سے رخصت ہو رہے تھے تب بھی ان کی مقبولیت کی شرح 61فی صدی تھی۔امریکہ میں ہونے والے ان سروے رپورٹ کو اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا اور ٹوئٹر کے ذریعہ جاری کئے گئے ٹوئٹ پیغام کے ذریعہ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے انتخابات کے بارے میں سروے کیا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ انتہائی غلط ثابت ہوئے اس طرح اب وہ اپنی منشا کے مطابق ان نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق پیش کر رہے ہیں۔واضع رہے کہ اس وقت مقامی میڈیا سی این این اور اے بی سی نیوز نے بتایا تھا کہ 1976ء سے لے کر اب تک سات صدور نے جب اپنے عہدے کا حلف لیا تو ان کی مقبولیت کی شرح 56سے79فی صدی کے درمیان تک تھی جبکہ صدر ٹرمپ کی صدارت کے آغاز میں ہی ان کو ناپسند کرنے کی شرح 54فی صدی تھی۔حال ہی میں گیلپ سروے کے مطابق جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر کیے گئے ہیں اس مں پول نے صدر ٹرمپ کو 36فی صدی پر لا کھڑا کیا ہے جبکہ ان کو نا پسند کرنے کی سطح 57فی صدی ہے اب تک ان کے دور اقتدار میں ان کی مقبولیت کا گراف زیادہ سے زیادہ 30فی صدی بلندی پراور کم از کم 40فی صدی نچلی سطح پر رہا اس طرح بحیثیت صدر اب تک کارکردگی اور جاب اپرول 45فی صدی سے اوپر نہیں جا سکی۔حال ہی میں گیلپ نے 3جون کو جو سروے کیا اس کے مطابق ٹرمپ کی مقبولیت کی شرح 36فی صدی تھی ۔اس طرح مارچ کو ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گر کر35فی صدی تک جا پہنچا جو کہ ان کی مقبولیت کی انتہائی کم شرح تھی۔اس طرح Quinnipiacیونیورسٹی کے سروے کے مطابق ان کی مقبولیت کا گراف گر کر 34پر پہنچ گیا جبکہ ملک کے 57فی صدی عوام نے ان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے سروے کے مطابق ان کی اپنی ہی پارٹی کے 64فی صدی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ تمام مسائل سے نبرد آزاما نہ نہیں ہو سکیں گے جبکہ صرف32فی صدی رپبلکن پارٹی کے افراد کا خیال ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر سکیں گے جبکہ کثیر تعداد میں لوگوں نے ٹرمپ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایماندار نہیں ہیں اور ان میں بہترین قائدانہ صلاحتیں بھی موجود نہیں جبکہ ان کو عام امریکی کا بھی کوئی خیال نہیں ہے۔جبکہ 62فی صدی نے ان کو طاقتور شخص قرار دیا جبکہ 57فی صدی افراد کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتہائی قابل شخص ہیں۔اس طرح ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جسیمس کومنی کو نوکری سے برطرف کرنے والے ٹرمپ کے آڈر کے بعد امریکیوں کی رائے ہے کہ صدر ٹرمپ کے روس سے روابط تھے جبکہ 31فی صدی کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ نے واقعی روس کے ساتھ ملکر غیر قانونی کام کیا ہے 29فی صدی کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں انہوں نے ہو سکتا ہے کہ غیر اخلاقی کام کیے ہوں گے مگر غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔جبکہ 32فی صدی افراد ان کو بے گناہ تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے جبکہ 40فی صدی کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے مشیروں نے اس ضمن میں کچھ غلط کیا ہو گا جبکہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔اس طرح 54فی صدی کو کامل یقین ہے کہ ٹرمپ کرمیلن سے کافی دوستانہ مراسم رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کے کہنے پر ہی روسیوں کو سائبر حملوں میں مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔بہر کیف باوجود ان نمبروں کے ٹرمپ اب تک سابق رپبلکن پارٹی کے 44ویں صدر جارج بش سے بہتر اب تک نمبر لیے ہوئے ہیں صدر جارج بش کیلئے 2013ء میں ہونے والے سروے کے مطابق ان کی مقبولیت انتہائی کم درجہ 38فی صدی پر پہنچ گئی تھی اور ان کا ریکارڈ اب تک کوئی بھی نہیں توڑ سکا ہے انتہائی دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سروے کے مطابق یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتماد کرتے ہیں جس کے جواب میں اکثریتی امریکیوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ناقابل اعتبار صدر ہیں اور وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکیں گے۔جس میں ان کا مقبول نعرہ امریکہ کو ایک بار پھر گریٹ امریکہ بنائیں گے بھی شامل ہے اگر ہم امریکی تاریخ کے اور پچھلے اوراق کا مطالعہ کریں تو صدر بل کلنٹن حلف کے 138دنوں کے بعد ان کی ریٹنگ 37.8پر پہنچ گئی تھی جو کہ انتہائی کم تھی صدر بل کلنٹن کی یہ شرح اس وقت7وائٹ ہائوس کے ملازمین کو برطرف کرنے کے بعد سامنے آئی تھی جس پر عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار یا تھا۔
نمبروں کی اتنی بڑی تہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہی پول برقرار رہتے ہیں تو 2018ء میں ہونے والے مڈٹرم انتخابات میں صدر ٹرمپ کی پارٹی رپبلکن پارٹی کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ امریکہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ 1946کے بعد اب تک امریکہ میں جو بھی مڈٹرم انتخابات ہوئے ہیں اگر اس میں صدر کی جاب اپرول 50فی صدی سے اوپر ہوتی ہے تب بھی برسراقتدار صدر کی پارٹی کو تقریبا امریکہ کی 14نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔اور اگر صدر کی جاب اپرول 50سے کم ہو تو برسراقتدار پارٹی کو کم از کم 36نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں اگر سابقہ یہی تاریخ برقرار رہتی ہے تو ڈیموکریٹس 2018ء میں ہائوس پر کنڑول کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو وہاںاس کے لیے صرف 24سیٹیں درکار ہیں تاہم ڈیموکرٹیک کے خلاف ایک فیکٹر جو سامنے نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن کے انتخابات کے موقع پر ہیلری کلنٹن نے جو ڈسٹرکٹ جیتے تھے وہاں سے 23ایسے رپبلکن امیدوار تھے جو کہ کامیاب ہوئے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلی سامنے نہ آ سکے تاہم اس ضمن میں ڈیموکرٹیک پارٹی کو اس وقت سے ہی بھر پورانتہائی مہم کی ضرورت ہے تاہم اگر مڈٹرم انتخابات میں اگر ڈیموکرٹیک اکثریت لے کر آ جاتے ہیں تو یہ صدر ٹرمپ کیلئے واقعی ایک ڈراونے خواب سے کم نہیں ہو گا تاہم اس ضمن میں ابھی بھی کافی وقت ہے اگر ٹرمپ نمبروں کی یہ جنگ کسی طرح جیت جاتے ہیں تو رپبلکن پارٹی کانگریس اور سینٹ میں اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھ سکے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں