وقت کے گھوڑے پر سوار عمران خان اورپاکستان کا مستقبل
آئن اسٹائین کے نظریہ کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس نظریے کے تحت اس نے نظریہ اضافیت پربات کی مگر اس کی مکمل تفہیم نہ ہو سکی، بعدازاں اسٹیفن ہاکنگ جو کہ برطانوی ماہر فلکیات تھے بلیک ہول کا نظریہ پیش کیا ، اس نظریہ کے تحت انہوں نے بتایا کہ ایک ستارہ جو کہ گرم گیہوں کا مجموعہ ہوتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح کے عمل میں وہ اپنا جسم اپنے مرکز کی طرف شدید کشف ثقل کے باعث سکیٹرنا شروع کر دیتا ہے،اس طرح ہزاروں میل کا قطر(ستارہ)سکڑکر ایک چائے چمچہ کی طرح اور پھر نقطہ ٔ پر آ کر فنا ہو جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ فنا اختتام پذیر نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہے لاکھوں اور کروڑں میل پر موجود وہ ستارہ اب وحدانیت اور سنگلریٹی بن جاتا ہے اور مادے کی کثافت لامحدود ہوتی ہے بلیک ہول وہ سر بستہ راز ہے، جو ہر چیز ہڑپ کر جاتا ہے، مگر کسی کو اس کے بعدکا پتہ نہیں، بحیثیت مسلمان ہمیں بھی خدا کی وحدانیت پر یقین ہے ،اپنی کتاب کے ذریعے اس نے ہماری رہنمائی بھی کی ہے،اس کا کہنا ہے کہ انسان ہمیشہ خسارے میںرہا ہے لیکن جنہوں نے اچھے اعمال کے ذریعے ایسے احسن عمل کئے وہ کبھی بھی گھاٹے یا خسارے میں نہیں رہے، کیونکہ آپ دنیا کے بادشاہ ہی کیوں نہ بن جائیں آخر کار ہم سب کو اسی مٹی میں مل جانا ہے، انسان جب اقتدار میں آتا ہے تو وہ دوسروں کا جبر واستحصال کرتا ہے لیکن اس دوران اگر دانشمندانہ طبقہ خاموشی اختیار کرلے اور جاہل شعلہ بیانی کرے تواس سے معاشرہ مزید تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے،پہلے زمانے میں سیانے کہتے آئے ہیں، کہ وقت کسی کیلئے نہیں ٹھرتا، آئن اسٹائین اور اسٹیفن ہاکنگ نے بھی وقت سے متعلق شہادتوں کے ذریعے اس بات کو بتانے کی کوششیں کیں، تاریخ نے دیکھا کہ کتنے ہی بادشاہ، دولتمند، امیر اور سلطان وقت کی ان لہروں پر سوار ہو کر آئے اور زمین پر اپنی آمد کے نشانات چھوڑ کر چلے گئے، ہمارے ملک پاکستان کی71سالہ تاریخ میں ایوب خان کی آمریت ،غلام، سکندر مرزا، یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق اور پھر مشرف آمریت کے رعب دار گھوڑے پر سوار ہو کر آئے مگر وہ آج کہاں ہیں، اس طرح عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھے والے ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ اور عوام کی طاقت کے بل بوتے پر ایوان اقتدار پہنچے، مگر یہ بھی تاریخ ہے کہ جب ان کا نماز جنازہ ہوا تو گڑھی خدا بخش میں سکوت طاری تھا، شریف النفس محمد خان جونیجو بحیثیت وزیر اعظم چین کے دورے پر تھے، واپس جب ائیر پورٹ اُترے تو ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے، جنرل ضیاء الحق جس کا طوطی11سال تک بولتا رہا، وہ اپنے30سے زائد جرنیلو ںکے ہمراہ جہاز میں جل کر مر گیا، اس کے جسد خاکی کو مٹی تک نصیب نہ ہو سکی، جس کو بھٹو نے5فٹ اوپر لٹکایا، قدرت نے اسکو50ہزار فٹ سے لٹکا کر زمین پر گرا دیا یہ شعور رکھنے والے سانوں کیلئے ایک سبق تھا ،بعدا زاں بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں برطرف ہوئیں، نواز شریف، جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوارہو کر ملک کے وزیر اعظم بن گئے، برطرف ہوئے، پھر واپس آئے اور اس طرح تین بار وزیر اعظم بنے ،اسی دوران جنرل پرویز مشرف جب وہ مسلح افواج کے سربراہ تھے توبتایا گیا کہ ان کو فوج کی سربراہی سے برطرف کر دیا گیا ہے ابھی وہ جہاز میں ہی تھے مگر جہاز اترنے سے پہلے ہی نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا، مشرف ایوان اقتدار میں تھا اور نواز شریف لانڈھی جیل میں ،مشرف بھی اس طرح9سال اقتدار پر قابض رہا ، اس نے اپنے دور اقتدار میں دشمنوں کو مکے دکھائے، ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ائیر پورٹ پر محسور کرکے باہر تک نہیں نکلنے دیا، بعد ازاں میثاق جمہوریت ہوا، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ ہوا، بینظیر پاکستان آئیں مگر وہ اس جنگ میں جان کی بازی ہار گئیں، تاہم ان کے خون کے صدقے اقتدار پیپلز پارٹی کو ملا، فرینڈلی اپوزیشن کے بعد اقتدارنواز شریف کو منتقل ہوا اور پھر آج وہی نواز شریف برطرف ہو کر اڈیالا جیل میں اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ موجود ہے، عمران خان جن کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اس کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر ہی نہیں ہے، مگر آج وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہے، فوجی جرنیل اس کی تربیت پر لگے ہوئے ہیں، تاہم وہی عمران خان جو کہ بچت کی بڑی بڑی باتیں کرتا تھا، وہی عمران خان آج بنی گالہ سے وزیر اعظم ہائوس جو کہ8کلو میٹر کا سفر روڈ کے ذریعے نہیں کر سکتا، اس کے پڑوسی آج بھی موٹر سائیکلوں اور ویگنوں پر وہی سفر کررہے ہیں آج کل نواز شریف جو کہ اڈیالہ جیل میں ہیں پیرول پر رہا ہوئے تو ان کا کمزوروناتواں چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، انہوں نے جاتی امراء میں اپنے لئے ایسے باتھ روم بنائے ہوئے تھے کہ اس کا کموڈ ہی اڑھائی کروڑ میں لگا تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہ کموڈ صوفہ سیٹ کی طرح ہے، بہر حال جیل میں امیر ہو کہ غریب اس کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس کی ذہنیت تبدیل ہو جاتی ہے،آصف زرداری کو ہی دیکھ لیجئے یا اب پھر پاکستان تحریک انصاف والوں کو ہی دیکھ لیں، ان لوگوں کو دولت کے ساتھ ساتھ بندوق اورمیڈیا کی حمایت بھی حاصل ہے تو وہ یقینا طمراق کے ساتھ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کی حالت جرمنی کے ہٹلر اور منگولیا کے چنگیزخان جیسی ہو جاتی ہے،بہر کیف یہ وقت چل رہا ہے وقت کی سوئی گھنٹوں اور منٹوں کو تیزی سے طے کررہی ہے آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ وقت لامحدود ازل سے لامحدود ابد یت کی جانب جاری ہے، وقت لہر کا نام ہے جو کہ مستقل بہہ رہی ہے جس میں ماضی،حال اور مستقبل زمانے نہیں ہیں، وہ گہرا سمندر ہے جو کہ شروع سے آخر تک بہتا ہی رہے گا۔ اور ہم جیسے انسانوں کی حقیقت ہی کیا ہے لیکن باوجود تمام چیزوں کا ادراک رکھنے کے ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو کہ نہیں کرنا چاہیے، انسان جب طاقتور ہوتا ہے تو اسی وقت حکمران ہی نہیں اس میں ہم سب بشمول سیاسی قائدین، مذہبی رہنما،ادیب، دانشور، افسر واہلکار صحافی وقلم کار سب کے سب پاکستانی کی اس زبوں کے ذمہ دار ہیں، ہر کسی کو اپنے اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کی ضرورت ہے، ہم نے انگریزوں سے رہائی حاصل کی مگر انگریز اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں ہماری درمیان ایک ایسا نشان چھوڑ کر جا چکے ہیں کہ ملک71سالوں بعد بھی آج انہی کے رحم وکرم پر ہے، ہماری قوم کا ضمیر مر چکا ہے، ہمارے زمین زادے ضمیر انسانیت کو زندہ کر سکتے ہیں یہ ممکن بھی ہے، مگر کون ہے جو یہ کام کر ے،آج عوام الناس زندگی کے تلخ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جنہیں مزید کچلنے کیلئے منی بجٹ لایا گیا ہے، ترقیاتی منصوبے بند کئے جا رہے ہیں، جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے والے جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس سے مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ پانچ سال عوام کیلئے خوشگوار تبدیلیاں لے کر آئیں گے، ہماری قوم جس کے جذبات واحسات مر چکے ہیں وہ زندہ ہونے کے باوجود مردہ قوم بن چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد جب بھی وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو ان کی اس تبدیلی کو اُچک لیا جاتا ہے، عمران خان جو کہتے تھے، کیا آج وہ اس پر عمل کررہے ہیں…؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ آپ کو آئندہ آنے والے دنوں کی پیش گوئی کر سکتا ہے، اس وقت حالات سیاسی معاشرہ ایسا تشکیل دیا جا چکا ہے کہ سیاسی مخالفت ذاتی مخالفت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے مجھے پاکستان میں رہنے والے عوام سے گلہ نہیں لیکن یہاں امریکہ میں رہنے والے لوگ جو کہ پڑھے لکھے معاشرہ میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں،وہ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کریں تو یقیناً اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو دیکھ لیجیے ان کے لیڈر اگلی نسلوں کاسوچتے ہیں مگر اقتدار حاصل کرنے کے لئے اب ایسی ایسی نسل تیار کی گئی ہے جس کوآنے والی نسلیں بھی یاد کر کے روئیں گی، بہر کیف وقت کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ہم ہوں اور یا نہ ہوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا مگر ہمیں آنے والی نسلوں کیلئے ایک بہتر پاکستان دینا ہو گا،یہ اس صورت ہی ممکن ہے جب ہم وقت کی قدر کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایسا پاکستان دیں جس کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے دیکھا تھا، عمران خان اور ان کی ٹیم اب وقت کے اس گھوڑے پر سوار ہے اب وہ وقت نہیں رہا کہ حالات کو بدلہ نہ جائے بلکہ حالات پیدا کئے جائیں اپنی بات منوانے کیلئے گالیوں اور الزامات کی سیاست کی جائے، سینے میں انتقام کی آگ بجھانے کیلئے جو چاہے شوشہ چھوڑ دیا جائے ،لوگوں کا مذاق اڑایا جائے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نفرتوں کی دیواریں پھلانگ کر پیار کے رشتوں کو برقرار رکھا جائے، سیاست کے گلیارے میں لوگ رسوخ حاصل کرنے اور مانگی مراد پانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہیں، یہ سب کام ہو چکا اب ڈیلیور کرنے کا وقت ہے اگر ڈیلیوری میں عوام کو وہ کچھ حاصل نہ ہو سکا جس کی انہیں امید ہے تو ان کے خوابوں کی فلک بوس عمارت آن واحد میں زمین بوس ہو جائے گی،71سالوں عوام مسائل کے تھپیڑے سہتے اور برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کے اندر کانٹوں کا بن موجود ہے جس سے وہ اندر ہی اندر لہولہان ہو رہے ہیں ، عوام اس خفیہ ہاتھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں جو کہ حالات کو بدلنا نہیں چاہتا بلکہ حالات پیدا کرنا چاہتا ہے ان کے سینوںمیں انتقام کی آگ ہے تا ہم اس بار قربانی کا بکرا نواز شریف بنا، قوم ابھی بھی جھانسے میں ہے لیکن جس دن اس قوم کو ترکی کی عوام کی طرح ہوش آیا تو سمندر کا سانس جھاگ میں ٹوٹ جائے گا،پاکستان کی اکتر سالہ تاریخ میں کتنے ہی جرنیل سورما لیڈر آئے اور چلے گئے، وقت کا پہیہ چلتا رہا مگر تاریخ کے اوراقوں میںان کے کئے گئے فیصلے ان کوتاریخ میں اچھا اور برا رہنما بیان کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک کرتے رہیں گے، 71سال کا عرصہ ایک بہت بڑا عرصہ ہے، جس میں قوموں نے ترقی حاصل کی، ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے، اس ملک کو قذاقوں کی پناہ گاہ کہا جاتا تھا، ملائیشیا آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے، تعلیم، انفرااسٹریکچر اور سیاحت کے حوالے سے یہ پوری دنیا میں مقبول ہے، اس طرح عرب امارات کی مثال بھی سامنے ہے، کچھ عرصہ قبل وہ ایک ویران اور بیاباں صحرا تھا، جس میں آج زمین ،آسمان کا فرق ہے اور اگر ان ممالک سے ہم مقابلہ کریں تو زمین اور آسمان کا فرق صاف نظر آجاتا ہے ان ممالک کو ان کی قیادتوں نے اس ترقی پرپہنچایا مگر پاکستان میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ 71سالوں سے اپنے پنجے سیاسی ایوانوں میں گاڑھے ہوئے ہے، اس کے سبب مستقبل قریب میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا کیکر کے درخت سے بیر حاصل کرنے کے مترادف ہے۔بہر کیف حال ہی میںپیش کئے گئے منی بجٹ کو ہی لے لیجئے،جہاں تک وزیر خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ترمیمی بل پیش کرنے کے دوران غریب عوام کو ریلیف دینے کا تعلق ہے تو وزیر اعظم،گورنر ،وزراء کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لانے کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ خوش آئندہ ہے اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ یہ لوگ بھی ہر قسم کاٹیکس ادا کرینگے مگر اس کے علاوہ ملک میں غیر پیداواری خرچ جس میں دفاعی اور انتظامی اخراجات شامل ہیں، اس کو کس طرح کم کیا جائے یہ سوچنا بھی اور اس پر اقدامات کرنا بھی بہت ضروری ہے، میںیہ سمجھتا ہوں کہ بجٹ اور معیشت ایک دوسرے سے لازم وملزوم ہیں، بجٹ میں وسائل کی درست طریقہ تقسیم سے ہی جمود کا شکار معیشت کو سہارا مل سکتا ہے، اس لئے معیشت مضبوط ہیو گی تو ملک کے تمام ادارے بھی مستحکم ہونگے، مگر خرچہ کم کرنا ہو گا، یہ درست عمل نہیں کہ جو لوگ ملک کو کھا رہے ہیں وہ ان کاملک بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھا کر پورا کیا جائے تو یہی کام71سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اس سے ملکی معیشت کو کبھی بھی بہتر نہیں بنایا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار معیشت کو مضبوط بنایا جائے، وقت کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا ،عمران خان اور ان کی ٹیم وقت کے اس گھوڑ ے پر سوار ہے اور یہ وقت آیا ہے اور چلا جائے گا لیکن حکومت وقت کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رقم ہونا شروع ہو گئی ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فیصلے کئے جائیں جس سے عوام کا معیار زندگی بلند ہو۔