وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات حکومت یا اپوزیشن کی نہیں، جمہوریت کے مستقبل کی بات ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ کی منظوری میں کردار ادا کرنے پر اپنی پارلیمانی پارٹی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
امریکا کو فوجی اڈے دینے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں،اپنی زندگی میں پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی’۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جائیں گے، اس وقت اسمبلی میں میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں’۔
عمران خان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا بڑا ناراض ہے، اس کے لیے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ کہیں بھی ہاتھ ماردے گا لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دیتی ہے؟
عمران خان نے کہا کہ ‘اپنے ملک سے 150 ارب ڈالر گئے ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ گیا کیونکہ یہاں تو کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی تو کوئی سرمایہ کار کیسے آتا یہاں تو انہوں نے ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ترین جگہ قرار دے دیا تھا جو وہ کہتے رہے ہم کرتے رہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی جنرل نے کتاب میں لکھا کہ ہم جانتے تھے کہ مشرف کمزور تھا تو ہم اس پر دباؤ ڈالتے رہے، مشرف سے جو کہا کرنے کا تیار ہوگیا، اپنے لوگ پکڑ کر گوانتاناموبے بھجوایا، پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہوں نے پیسے لے کر لوگوں کو بھجوایا، مگر کس قانون کے تحت؟’۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو ان کی حفاظت کون کرے گا؟
انہوں نے مزید کہا کہ’ بات یہاں تک نہیں رکی قبائلی علاقے میں تورا بورا کے بعد القاعدہ آگیا، قبائلی علاقے میں اوپن بارڈر تھا ہمیں انہوں نے حکم دیا کہ وہاں اپنی فوج بھیجیں اور چند سو القاعدہ کے لیے ہم نے قبائلی علاقے میں اپنی فوج بھیج دی، وہاں ہمارے اپنے لوگ بھی تھے، اُدھر سے وہ ڈرون حملہ کریں تو ہمارے شہری مرجاتے اور فوج کو پتا ہی نہیں کس کے پیچھے جارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے قبائلی علاقے کی نصف آبادی نے نقل مکانی کی اور ابھی تک ریکور نہیں ہوا’۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی مخالفت کی تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا، جب میں کہتا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں تو طالبان کا حامی کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘امریکا ہمارا دوست ہے تو کبھی سنا ہے کہ آپ کا دوست اپنے ملک میں بمباری کررہا ہو، وہ آپ کا اتحادی ہے اور ڈرون حملے کررہا ہو اور ان حملوں میں جو لوگ مرتے تھے ان کے گھروالے جاکر پاکستانی فوج اور پاکستان سے بدلہ لیتے تھے، اس طرح دونوں طرف پاکستانی مررہے تھے’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘میں جب کہتا تھا کہ کیوں اجازت دی ہے تو کہا جاتا تھا کیونکہ پاکستان ان کے پیچھے جارہا ہے لہذا ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے’۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا کہ ’30 سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں دی ؟’۔
انہوں نے کہا کہ ‘کیا ہم سب -ہیومن ہیں؟ آدھے انسان ہیں؟ ہماری جان کی اتنی قیمت نہیں؟ اجازت دی گئی اور لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ ذلت تھی کہ پہلے انہیں اجازت دیتے ہیں، پھر اتنا حوصلہ نہیں کہ لوگوں کو بتاتے بلکہ مذمت کی’۔
انہوں نے کہا کہ اپنی بجٹ تقریر شروع کرنے سے قبل اپوزیشن کو اس موضوع پر بات کرنے کی دعوت دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں 1970 کی دہائی کے بعد سے تمام انتخابات متنازع رہے اور ابھی بھی سینیٹ کے انتخابات اور ضمنی الیکشن میں تنازع کا شکار رہے۔
وزیراعظم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 برس میں ہم نے بہت کوشش کی کہ اس ضمن میں کیا اصلاحات کی جاسکتی ہیں کہ جو بھی الیکشن ہارے اس نتیجے کو قبول کرے، ہم نے اس سلسلے میں تجاویز بھی دی ہیں لیکن ابھی تک ان پر اپوزیشن کی بحث نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ یہ حکومت و اپوزیشن کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اپنی زندگی کے 21 سال میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل کر گزارے تو میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ملک اپنے اپنے امپائر کھڑے کرتے تھے اور جو ہارتا تھا وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے ہمیں ہرادیا لیکن پاکستان وہ ملک تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبی نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نا ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔
وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔
انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہم نے کہا تھا کہ الیکشن درست نہیں ہوئے تو 133 میں سے 4 حلقوں کا مطالبہ کیا تھا کہ ان کا آڈٹ کیا جائے لیکن ان 4 حلقوں کو نہیں کھولا گیا تھا جس کے بعد 2 سے ڈھائی سال بعد کیس لڑکر ہم نے وہ حلقے کھلوائے اور نتائج میں دھاندلی پائی گئی تھی۔
عمران خان نے کہا کہ میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فوراً سامنے آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ سننے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو یہ مسئلہ ہر الیکشن میں آئے گا جیسا کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں ہوا۔
بجٹ 22-2021 سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ میں شوکت ترین اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے میری وژن کے مطابق بجٹ تیار کیا۔
انہوں نے کہا کہ 25 برس قبل جب ہم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی جس کے محرکات میں صرف نظریہ پاکستان شامل تھا، جو قراردادِ مقاصد میں بھی واضح ہے کہ اسلامی، فلاحی ریاست ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسلامی، فلاحی ریاست کا نظریہ مدینہ کی ریاست سے لیا گیا تھا، جو پہلی فلاحی ریاست تھی، یہ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اسی نظریے پر عمل کرے کیونکہ ہم اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ہم پاکستان کے نظریے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ درپیش تھا، جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا اور اس کی وجہ سے ہماری کرنسی خطرے میں تھی، ڈالرز کی کمی تھی جس کی وجہ سے ڈالر نے اوپر جانا ہی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اتنے بڑے بحران میں ہماری ٹیم نئی تھی، تجربہ نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت مشکل اور تکلیف دہ قدم اٹھائے تھے۔
انہوں نے ملک کو درپیش مالی مسائل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایک گھر مقروض ہوجاتا ہے، آمدنی اور خرچے میں بڑا خسارہ ہوجاتا ہے، لوگ پیسے مانگنے کے لیے آرہے ہیں کیونکہ قرضے لیے ہوئے ہیں، وہ صرف 2 چیزیں کرسکتا ہے اپنے خرچے کم کرتا ہے اور آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جب خرچے کم کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی طرح ہمیں بھی مشکل فیصلے کرنے پڑے، عوام کو تکلیف ہوئی اور کئی ابھی بھی تکلیف سے گزر رہے ہیں لیکن جب ایک ملک مقروض ہوجائے اور مشکل میں پڑجائے تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس دوران ہماری معاشی ٹیم نے جو فیصلے کیے اس پر مجھے خوشی ہے، دنیا میں باہر گئے مالی مدد طلب کی، میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں ڈیفالٹ سے بچایا’۔
عمران خان نے کہا کہ شروع میں جب بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات ہوئے تھے تو ہماری کوشش تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، ہم نے کوشش کی کہ کوئی اور طریقہ نکل آئے کیونکہ ان کی شرائط بہت مشکل تھیں لیکن بالآخر ہمیں جانا پڑا اور شرائط مشکل ہونے کی وجہ سے عوام کو تکلیف ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ابھی اس مشکل سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا وائرس آگیا، کورونا نے پوری دنیا کی معیشت پر اثرات مرتب کیے تو ایک ایسی معیشت جو پہلے ہی مشکل کا شکار تھی، اس میں ہماری ٹیم، ڈاکٹر فیصل نے بہترین کارکردگی دکھائی اور پاک فوج، انٹیلی جنس نے ہماری مدد کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے افغانستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا جیسے حالات نہیں، اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں بچالیا اور ہم اس لیے بھی بچ گئے کہ ہم نے مکمل لاک ڈاؤن نہ لگانے کا فیصلہ کیا۔
قومی اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان گرما گرمی دیکھنے میں آئی تھی اور ایک دوسرے کے بیان پر جواب دیتے ہوئے سخت جملے بھی استعمال کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے لیے کثرت رائے سے بجٹ منظور کرلیا تھا، اس دوران وزیراعظم صرف 50 منٹ اجلاس میں موجود رہے تھے اور حکومتی اراکین کی تعداد کافی ہونے کے باعث حتمی ووٹ سے قبل ہی ہال سے واپس چلے گئے تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بجٹ پر قوم کے 172 نمائندوں نے ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیا، اور جب ووٹ کی عزت کی بات آئے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے عزت ملنی چاہیے، یکطرفہ عزت نہیں ہوسکتی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر حکومت بجٹ پر ووٹنگ میں دھاندلی نہیں کرتی تو دنیا دیکھتی کہ وزیراعظم کے پاس 172 ووٹس بھی نہیں ہیں۔