اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے کچھ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے مبینہ وائٹ کالر جرائم کے خلاف ایک ریفرنس، 2 تفاتیش اور 4 تحقیقات کی منظوری دے دی۔
چیئرمین نیب کی سربراہی میں ہونے والی ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بلوچستان کے محکمہ آب پاشی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر عبدالحمید اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی۔
ان پر نوری جارج انٹیگریٹڈ گرینڈ اسکیم کو غیر قانونی ٹھیکا دینے کا الزام ہے جس سے قومی خزانے کو 21 کروڑ 63 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کا متعدد انکوائریز بند، نئی تحقیقات شروع نہ کرنے کا فیصلہ
نیب نے محکمہ انسداد بدعنوانی اور محکمہ ریونیو، اسکیم 33، گلزار ہجری کراچی کے افسران اور عہدیداروں خلاف 2 تفاتیش کی بھی منظوری دی۔
اجلاس میں محکمہ ثقافت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور احمد کناسیر، ڈائریکٹوریٹ آف پلاننگ اینڈ ورکس سندھ کے ڈائریکٹر محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن سندھ کے افسران اور عہدیدار، رکن سندھ اسمبلی میر نادر مگسی، محکمہ بلدیات، لینڈ، صوبائی محکمہ شاہراہ کے افسران اور عہدیداران، ٹھیکے دار بلاول شیخ اور پارس رام اور رکن سندھ اسمبلی نواب خوان چانڈیو سمیت دیگر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا۔
اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین نیب، پروسیکیوٹر جنرل برائے احتساب، ڈائریکٹر جنرل آف آپریشن اور دیگر سینئر عہدیداران شریک ہوئے۔ نیب کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے بیورو کی پالیسی ہے کہ ای بی ایم کی تفصیلات عوام کو فراہم کی جاتی ہیں تا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچایا جاسکے اس وجہ سے میڈیا کو اس حوالے سے قیاس آرائیوں سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی کے خلاف نیب کی تحقیقات کا آغاز
نیب نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’تفاتیش اور تحقیقات کا فیصلہ الزامات کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو حتمی نہیں ہیں اور یہ فیصلہ دونوں معاملے کے دونوں پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
ای بی ایم نے ٹنڈو جام کی سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجیب الدین میمن اور صوبائی محکمہ شاہراہ سانگھڑ کے افسران اور عہدیداران کے خلاف شواہد نہ ہونے کی وجہ سے تحقیقات کا بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
اجلاس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشنز کے پروکیورمنٹ اور لاجسٹک ڈپارٹمنٹ کے عملے کے خلاف تحقیقات مزید کارروائی کے لیے پی آئی اے سی انتظامیہ کو بھجوادی گئیں۔
اجلاس میں عبدالجبار بھٹو، سید احمد شاہ کے خلاف انکوائریز کو مزید کارروائی کے لیے چیف سیکریٹری سندھ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔