نیب نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ کو طلب کرلیا

نیب نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ کو طلب کرلیا


اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور مشترکہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کو مبینہ غیر قانونی تعیناتیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے آج (جمعہ کو) طلب کرلیا۔

نیب ترجمان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے اکرم درانی کو غیر قانونی تعیناتی سے متعلق کیس کی تفتیش کے لیے بلایا ہے‘۔

انسداد بدعنوانی کے ادارے کے مطابق اکرم درانی نے نیب کی جانب سے جاری 3 انکوائریز میں 23 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے 2 ہفتوں کی حفاظتی ضمانت حاصل کی تھی۔

خیال رہے کہ اکرم درانی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں وزیر ہاؤسنگ کے عہدے پر تعینات رہے تھے۔

دوسری جانب اکرم دانی کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے آزادی مارچ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اس لیے نیب انہیں نشانہ بنا رہا ہے۔

ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ ’نیب حکام انہیں ہراساں کررہے اور نشانہ بنا رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ اکرم درانی کو وفاقی حکومت ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی 2 ہاؤسنگ اسکیم میں مبینہ بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ ان پر منظورِ نظر افسران کی تعیناتی، مسجد کے لیے ’خلافِ ضابطہ‘ پلاٹس مختص کرنا اور پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) میں شامل ہونے کا الزام ہے۔

نیب ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اکرم درانی نے وفاقی دارالحکومت کی مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے اپنے آبائی علاقے کے 70 سے زائد افراد کا ڈومیسائل اسلام آباد سے تیار کرواکے انہیں وزارت ہاؤسنگ میں تعینات کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی دائر درخواست میں اکرم درانی نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ نیب کو آزادی مارچ کے منتظمین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے اکرم درانی کو 10 اکتوبر کو حفاظتی ضمانت دی تھی اور نیب اس کی مدت ختم ہوتے ساتھ ہی انہیں گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔

نیب تحقیقات کے بارے میں اکرم درانی نے اپنی درخواست میں واضح کیا تھا کہ وزارت کی جانب سے بھرتیوں کے عمل اور اس سے منسلک شعبہ جات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا کیوں کہ تعیناتی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی تھی۔

درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاک-پی ڈبلیو ڈی میں تقریباً ایک دہائی سے آسامیاں خالی تھیں اور انہوں نے بلاتاخیر نئی تعیناتیاں یقینی بنائیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں