پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے میئر کے انتخاب کے غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مرتضیٰ وہاب 173 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
ٖٖغیر سرکاری نتائج کے مطابق جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن دوسرے نمبر پر رہے۔
میئر کے انتخاب کے بعد آرٹس کونسل کے باہر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کے درمیان گھمسان کا تصادم ہوا، اس دوران پولیس پر بھی پتھراؤ کیا گیا جبکہ گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے گئے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق صورتحال کشیدہ ہونے پر پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری طلب کی گئی، بعد ازاں پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس سے کارکنان منتشر ہوگئے۔
بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر شرجیل میمن نے بتایا کہ کارکنوں کے درمیان ہوئے تصام میں 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ آج شہر میں سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ کے باعث متوقع بارشوں کے پیش نظر کے ایم سی بلڈنگ میں سٹی کونسل ہال کے بجائے آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم کو پولنگ اسٹیشن کا درجہ دیا گیا تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے میٹرو پولیٹن شہر کی مقامی حکومت کے امور سنبھالنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا۔
پیپلز پارٹی نے مرتضیٰ وہاب جبکہ جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمٰن کو میئر کراچی کے عہدے پر نامزد کیا تھا۔
ڈپٹی میئر کے لیے پیپلز پارٹی کے سلمان عبداللہ مراد اور جماعت اسلامی کے سیف الرحمٰن میدان میں موجود ہیں۔
نمبرز گیم
سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے 155 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 130 ہے جبکہ پی ٹی آئی 62، مسلم لیگ (ن) 14، جے یو آئی 4 اور تحریک لبیک کی ایک نشست ہے۔
میئر کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی۔ایف) جبکہ جماعت اسلامی کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔
اس طرح پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ارکان کی تعداد 173 ہے جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ اراکین 192 ہیں۔
تاہم میئر کے انتخاب کے قبل اس وقت ڈرامائی صورتحال دیکھنے میں آئی جب پی ٹی آئی کے 30 منحرف یو سی چیئرمینز کے گروپ نے اسد امان کو اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کردیا۔
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی ہدایات اور چیئرمین کے بجائے پارلیمانی لیڈر کے فیصلے کو ترجیح دیں گے اور پارلیمانی لیڈر جسے کہے گا اُسے ووٹ دیں گے، منع کرنے کی صورت میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن ناظم آباد سے الیکشن جیت کر سٹی کونسل پہنچے ہیں جبکہ مرتضیٰ وہاب منتخب رکن نہیں ہیں، جنہیں میئر منتخب کرانے کے لیے پیپلز پارٹی نے بلدیاتی قانون میں ترمیم بھی کی تھی۔
مذکورہ ترمیم کے خلاف حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت میئر کراچی کے الیکشن پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
آصف علی زرداری کی مرتضیٰ وہاب کو مبارکباد، پیپلز پارٹی کا جشن کا اعلان
سابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ میں تمام میئرز اور ڈپٹی میئرز، ڈسٹرکٹ کونسلز اور ٹاؤن کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو بھی مبارکباد دی۔
سابق صدر نے مرتضٰی وہاب کو کراچی کا میئر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
انہوں نے کہا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کامیابی کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے، اپنے دفاتر کے دروازے عوام کیے لیے کھلے رکھیں۔
آصف علی زرداری نے میئرز، ڈپٹی میئرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو ہدایت کی کہ آج ہی سے اپنا کام شروع کریں۔
صوبائی وزبر سعید غنی نے کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی شاندار کامیابی پر آج مورخہ 15 جون شام ساڑھے 7 بجے بلاول چورنگی پر جشن فتح منایا جائے گا۔
ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ جشن کے موقع پر شاندار آتش بازی کا مظاہرہ ہوگا، تمام کارکنوں اور شہریوں سے گزارش ہے کہ وہ شریک ہوں، ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف قانونی کی جائے گی۔
میئر کراچی کا الیکشن آئین و جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے، سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ منتخب نمائندوں کے اغوا، ووٹوں کی خریداری، دھونس دھاندلی سے میئر کراچی کا الیکشن آئین و جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جمہوریت کو اس طرح مسلسل مذاق بنایا جائے گا تو اس پر لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ کی ملی بھگت بھی واضح ہے، بلدیاتی اور میئر الیکشن میں اس نے سندھ حکومت کے طفیلی ادارے کا کردار ادا کیا ہے۔
قبل ازیں میئر کے الیکشن کے لیے پولنگ اسٹیشن پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ میئر کے انتخاب میں جماعت اسلامی جیتی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے 193 نمبرز اور پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی 173 نمبرز پر ہے۔
حافظ نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے چئیرمینز کو ووٹ ڈلوانے کے لیے حاضر نہیں کیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام نومنتخب چیئرمینز کو ووٹ ڈالنے کے لیے پیش کیا جائے۔
جو ہار گئے، اپنی شکست تسلیم کریں، شرجیل میمن
صوبائی وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ کراچی حیدرآباد کے شہریوں کو مبارکباد کہ پیپلز پارٹی نے سندھ بھر میں کلین سوئپ کرلیا، جو ہار گئے وہ اپنی شکست تسلیم کریں۔
میئر کراچی کے انتخاب کے بعد صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ ہر ضلع میں ہمارے میئر اور چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں، کراچی کے شہریوں نے فیصلہ دے دیا کہ وہ ترقیاتی کام کرنے والوں کے ساتھ ہیں، انتخابات میں مرتضیٰ وہاب اور سلمان مراد نے کامیابی حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابی پیپلز پارٹی اور کراچی کی کامیابی ہے، ماضی میں بھی ریکارڈ ترقیاتی کام کیے گئے اور سالڈ ویسٹ نے کچرا شہر سے اٹھایا، پانی کی بڑی میگا اسکیم کراچی میں جاری ہیں۔
شرجیل میمن نے دعویٰ کیا کہ کراچی پورے پاکستان میں بہترین طبی سہولیات دینے والا شہر ہے، اب نفرت ختم ہونی چاہیے، جماعت اسلامی کو چاہیے ساتھ مل کر ترقیاتی کاموں میں ساتھ دیں، افسوس جماعت اسلامی نے نتائج کے بعد جو افراتفری کی وہ قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے امن کا مظاہرہ کیا، ساتھ ہی الزام عائد کیا کہ جماعت کی بسیں بھر کر غنڈے بلائے گئے جنہوں نے ہمارے کارکنان اور پولیس پر پتھراؤ کیا، جو ہار گئے وہ اپنی شکست تسلیم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جماعت نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جماعت اسلامی والے واپس گھروں کو لوٹ جائیں، گڑ بڑ اور غنڈہ گردی کی کوشش کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں، آپ کو ہمارے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے، جن پی ٹی آئی اراکین نے جماعت کو ووٹ نہیں دیا انہوں نے پیپلزپارٹی کو بھی ووٹ نہیں دیا، اب جماعت الزام تراشیوں سے باہر آجائے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ تصادم کے نتیجے میں 10 افراد زخمی ہوئے اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا، جماعت اسلامی نے غنڈا گردی دکھائی انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، سیاسی جماعت بن کر رہیں، سلطان راہی کی سیاست نہ کریں۔
اس موقع پر صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ ان کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، پیپلز پارٹی کے ایم سی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے اور ٹی ایل پی نے بھی آج پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ میئر کراچی کے لیے کیا گیا، 30 افراد نے پی ٹی آئی کی طرز سیاسیت کی وجہ سے ووٹ نہیں دیا۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ جماعت اسلامی کا احتجاج پر امن احتجاج حق ہے، میئرشپ کے شوق میں حافظ صاحب زمان پارک بھی پہنچ گئے، اس سے لوگوں نے مزید انہیں ووٹ نہیں دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانونی طور پر جماعت اسلامی جو کرے وہ ان کا حق ہے، وہ الیکشن کمیشن یا عدالت جائیں انُ کا حق ہے، ہم نے پی ٹی آئی اراکین سے رابطہ ضرور کیا تھا مگر انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔
میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کا طریقہ کار
پولنگ کے لیے صبح 11 بجے کا وقت مقرر کیا گیا، جو اراکین صبح 9 بجے سے 11 کے درمیان آرٹس کونسل پہنچنے میں کامیاب رہے وہ ووٹ دینے کے حقدار ٹھہرے، تاہم پولنگ کے عمل کی نجی میڈیا کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔
پولنگ ہال میں موجود اراکین کے شو آف ہینڈ (ہاتھ کھڑا کرنے) کے ذریعے میئر اور ڈپٹی میئر کی عہدوں پر امیدواروں کی کامیابی کا فیصلہ ہوا۔
ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے کے مطابق پی ٹی آئی کے 62 ارکان میں سے 32 ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آئے، جس کے بعد یو سی اراکین کی کُل تعداد 336 میں سے 333 تھی۔
طریقہ کار کے مطابق سٹی کونسل کے اراکین کو اصل شناختی کارڈ کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پہنچنا تھا اور صبح 10:30 کے بعد آڈیٹوریم کے دروازے بند کردیے جانے تھے۔
سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب کی نامزدگی اعلان کے بعد ان کی حمایت کرنے والے اراکین کو شمار کیا گیا۔
اس کے لیے ووٹرز کے نام اردو حروف تہجی کے اعتبار سے پکارے اور حامی ووٹر کو آڈیٹوریم کی ایک جانب کر کے گنتی کی جانی تھی، ہر رکن کو ایک رجسٹر میں اپنے نام کے سامنے انگوٹھے کا نشان لگانا اور دستخط کرنا تھے، جس کے بعد ان کے انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان بھی لگایا گیا۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن کے نام کے اعلان کے ساتھ اسی طریقے سے پولنگ ہوئی اور میئر کے الیکشن کے بعد ڈپٹی میئر کا انتخاب بھی اسی طرح ہوا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے گرفتار یوسی چیئرمینوں کو بھی پولنگ اسٹیشن لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے۔
انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت پولنگ اسٹیشن کے اندر ہنگامہ کرنے اور رکاوٹ ڈالنے پر کارروائی کا انتباہ دیا گیا تھا جبکہ پولنگ اسٹیشن کے 400 میٹر کے دائرے میں انتخابی مہم چلانا غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے، مرتضیٰ وہاب
قبل ازیں آرٹس کونسل پہنچنے پر نامزد میئر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اور ہمارے نمبرز پورے ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر جماعت اسلامی کے نمبر زیادہ ہوئے تو ہم ان کااحترام کریں گے، الزامات سے باہر نکلنا پڑے گا، کراچی کے ماسٹرپلان پر ہمیں مل کر کام کرنا پڑے گا۔
رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ ہم نے اضافی اراکین نہیں بلائے، افہام وتفہیم سے ہم الیکشن کاعمل جاری رکھناچاہتے ہیں۔
صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے کہا تھا کہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مئیر اور ڈپٹی مئیر بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لیے بنائے گئے پولنگ اسٹیشن میں میری اطلاعات کے مطابق 331 ارکان موجود ہیں۔
سعید غنی نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی حلیف جماعتوں کے 173 ارکان اس وقت پولنگ اسٹیشن میں موجود ہیں، اس حساب سے جماعت اسلامی اور اس کی حلیف جماعت پی ٹی آئی کے 158 ارکان پولنگ اسٹیشن میں موجود ہیں۔
علاوہ ازیں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کی شکست نوشتہ دیوار ہے اگر انہوں نے کوئی گڑ بڑ کی تو حکومت قانون ہاتھ میں نہیں لینے دے گی البتہ انہیں پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے۔
کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے دن ثابت ہوجائے گا کہ کراچی ایک مرتبہ پھر نفرت، افراتفری اور تعصب کی سیاست کو دفن کرنے جارہا ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ جماعت اسلامی جس طرح کی زبان استعمال کر رہی ہے اور الزامات لگا رہی ہے وہ مناسب نہیں ہے، وہ چاہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ انہیں پی ٹی آئی کے ووٹ لے کر دیں۔
صوبائی وزیر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو جیتنا ہے تو آپ خود لوگوں کو قائل کریں، پی ٹی آئی کے اراکین نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں کو ووٹ نہیں دیں گے اور اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں، جماعت اسلامی کو چاہیے تھا کہ انہیں قائل کرتی سندھ حکومت پر الزامات نہ لگاتی۔