نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی کے بلوں میں اضافے پر شہریوں کے ملک گیر احتجاج کے باعث آج اسلام آباد میں ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔
ایک روز قبل بجلی کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے ملک بھر کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس کے بعد نگران وزیراعطم نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔
وزیر اعظم اس سلسلے میں صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے پاور ڈویژن کے ساتھ ساتھ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے بھی بریفنگ لیں گے۔
دوسری جانب حکومت نے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران کو بجلی پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے سیکریٹری پاور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال سے ملاقات کی اور بجلی کے بلوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اطلاعات نے ڈان کو تصدیق کی کہ ڈسکوز افسران دی جانے والی مفت بجلی کی سہولت ختم کر دی جائے گی، گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کو مفت بجلی کی سہولت واپس لینے کی سمری کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
وزیر اطلاعات کو بتایا گیا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے بنیادی طور پر 400 یونٹس سے زیادہ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین متاثر ہوئے اور 63.5 فیصد گھریلو صارفین کے لیے ٹیرف میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
ملتان، لاہور میں احتجاج
اس کے علاوہ ملتان اور لاہور کے علاقے شاہدرہ میں بھی بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
ملتان کی الفلاح مارکیٹ کے رہائشیوں اور تاجروں نے بجلی کے بلوں کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، انہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے ، مظاہرین نے ٹائروں کو آگ لگا کر سڑکیں بلاک کر دیں۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مظاہرین میں شامل ایک شہری نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خاندان کا واحد کمانے والا ہے، اس کا بل24 ہزار روپے تھا جب کہ اس نے صرف ایک فریج اور پنکھا استعمال کیا تھا، شہری نے مزید کہا کہ گزشتہ ماہ بھی اس کا بجلی کا بل 23 ہزار روپے تھا۔
ایک خاتون نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، ان کا شوہر مزدور ہے ،کسی دن مزدوری ملتی ہے، کسی دو نہیں۔
خاتون نے کہا کہ کیا ہم اپنے بچوں کی بھوک مٹائیں یا انہیں تعلیم دلائیں؟ خاتون نے بتایا کہ گزشتہ ماہ اس کا بجلی کا بل 10 ہزار روپے تھا جسے وہ ادا نہیں کرسکے، ہم اتنا بل ادا نہیں کر سکتے، ہماری مددکریں، ، کچھ کرو۔
ایک اور خاتون نے کہا کہ ہم گھر کا کرایہ دیں، بجلی کا بل ادا کریں یایا اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں؟
ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے عوام کے تحفظات دور کرنے کا مطالبہ
ادھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے حکومتسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے صوبائی اور مرکز کی نگراں حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ حیدرآباد میں 12سے 14 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، وہاں کے تاجر اب احتجاج پر مجبور ہیں، تاجر برادی نے جو کال دی ہے، ایم کیو ایم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اس احتجاج کی حمایت کرے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ طویل لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل جوں کے توں رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حیدرآباد کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم اس مسئلہ میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ملک تیزی سے ’انتشار‘ کی جانب جا رہا ہے، بجلی کے بل عوامی پہنچ سے باہر ہو چکے، اپر مڈل کلاس بھی بجلی کے بل ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی گھر کا ماہانہ بل 2 ہزار روپے ہے تو ٹیکس کی وجہ سے اس میں 43-48 فیصد اضافہ ہوگا، پوری دنیا میں کہیں بھی بجلی کے استعمال پر ٹیکس نہیں ہے۔
ٹیکس کم نہیں کیا جا سکتا، ماہرین
ماہرین سمجھتے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکسز اور لیویز کو مختصر مدت کے اندر کم نہیں کیا جا سکتا، معاشی تجزیہ کار معاذ اعظم نے کہا کہ خاص طور پر مالیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ نگران حکومت کے لیے کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا اس میں تاخیر کرنا ممکن نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر بیس ٹیرف 30 روپے فی یونٹ ہونے کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ بجلی کا بنیادی ٹیرف 23 روپے ہے اس میں 72 فیصد کیپیسٹی چارجز ہیں جو پاور پلانٹس کو آپریشنل رکھنے کی لاگت ہے جو اس وقت بھی ادا کرنے ہوتے ہیں جب کہ حکومت ان سے بجلی نہیں خریدتی۔
جولائی میں نیپرا نے بیس ٹیرف کا تعین کرتے ہوئے اندازہ لگایا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 17 فیصد رہے گی جب کہ ڈالر 286 روپے کا گا، یہ دونوں اندازے پہلے ہی غلط ثابت ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ کوئی حل نظر نہیں آرہا، پاک-کویت انوسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ ہیڈ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ہم ایک پیچیدہ صورتحال میں ہیں، 12 ماہ قبل ٹیرف کے تعین اور ریکوری میں تاخیر ہوئی، اب اہم مسئلہ انتہائی غیر مستحکم ایکسچینج ریٹ ہے۔
تجزیہ کاروں کی جانب سے اشارہ کیا گیا کہ ستمبر میں بجلی کے بلوں میں ہائی بیس ٹیرف کی وجہ سے اضافہ ہو سکتا ہے، آنے والے دنوں میں عوامی دباؤ اور احتجاج کی توقع کی جا سکتی ہے جب کہ سیاست دان بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔
حال ہی میں پاور ڈویژن نے نیپرا سے درخواست کی کہ اپریل تا جون 2023 کے لیے 5.40 روپے فی یونٹ اضافی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو اس فارم میں لاگو نہ کیا جائے۔
پاور ڈویژن حکام نے نیپرا سے درخواست کی کہ صارفین سے تین ماہ کے لیے 5.40 روپے فی یونٹ کے بجائے چھ ماہ کے لیے 3.55 روپے فی یونٹ کی شرح سے بجلی وصول کی جائے، تاہم سمیع اللہ طارق نے کہا کہ وسط مدتی اور طویل مدتی واحد حل یہ ہے کہ بجلی اور گیس کمپنیوں کو بند کر دیا جائے اور بغیر کسی سیاسی یا دوسری مداخلتوں کے ان کی نجکاری کی جائے۔