مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ، خفیہ طاغوتی قوتیں اور عوام


پاکستان میں مولانا فضل الرحمن حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف
عمل ہیں، دوسری جانب اس ضمن میںحکومتی حلقوں کے ساتھ ان میںبے چینی اور
سراسیمگی ہے اب تک تمام اپوزیشن جماعتیں اختلافات کا شکار ہیں، نواز شریف
کی پارٹی بھی گومگوں کیفیت کا شکار ہے، پیپلز پارٹی کبھی ہاں اور کبھی
ناں والی پالیسی پر عمل پیرا ہے، لیکن ایک بات جو صاف نظر آ رہی ہے کہ
مولانا اپنے فیصلہ میں بغیر کسی لچک کے قائم ودائم ہیں اور27اکتوبر کو
دھرنے کے فیصلہ پر قائم ہیں اور وہ کسی قیمت اس دھرنے اور ماچ سے
دستبردار ہونے یا کنارہ کشی کرنے کیلئے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ
اور ان کے حامی ہر صورت میں27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرینگے ،
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ دھرنا اس قت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ حکومت
گھر نہیں چلی جاتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہو گا؟،
اس بارے میں صورتحال اب تک واضح نہیں ہے، یہ باتیں بھی باز گشت ہو رہی
ہیں کہ اس دھرنے کے پیچھے شاید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہو، پیپلز پارٹی کا
کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی بھی ایسی پارٹی کا ساتھ نہیں دینگے جو کہ
مذہبی کارڈ کا استعمال کریں گی،لیکن بعد ازاں پھر سے پیپلز پارٹی نواز
شریف کے ہمراہ مشورے اور مشاورت کے فیصلوں میں شامل ہو گئی ہے، نواز شریف
کی مسلم لیگ ن بھی مولانا کے منصوبوں سے متعلق واضح بیان دینے سے قاصرنظر
آ رہی ہے،مسلم لیگ ن والے ملاقاتوں پر ملاقاتیں کررہے ہیں لیکن یہ
ملاقاتیں اب تک بے نتیجہ ہی ثابت ہو رہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اس بے
نتیجہ ملاقاتوں میں برابر کی حصہ دار ہے، مسلم لیگ ن کے حلقہ اس ضمن میں
اپنے خدشات رکھتے ہیں، ان کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پر پہلے
سے ہی ریاستی عذاب نازل ہے ، اس صورتحال میں کیا ان کی پارٹی دھرنے میں
شرکت لینے کا کیا کارسک لے سکتی ہے کہ نہیں؟کچھ رہنمائوں کا کہنا ہے اس
صورت میں ان کی پارٹی کو مزید سخت صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے
اور مزید مصیبتوں کا سامنا کرنا ہو گا، دوسری طرف مارچ اور دھرنے سے
متعلق کئی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مولانا مارچ کے انعقاد کے سلسلے میں
اتنے پر اعتماد کیوں دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس مارچ اور دھرنے پر بضد
کیوں ہیں؟ ان کا خیال ہے کہ شاید مولانا کو درپردہ کسی نہ قسم کی کوئی نہ
کوئی گارنٹی ضرور دی گئی ہے یا کوئی نہ کوئی یقین دہانی ضرور کرائی گئی
ہے، جس سے دیگر سیاستدان اب تک بے خبر ہیں، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ
مولانا فضل الرحمن جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے رابطے
میں ہیں اور ان کا جھکائو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف  رہا ہے تاہم اگر ہم
ماضی کی تاریخ دیکھیں تو2014ء میں عمران خان کی جانب سے کئے گئے فیصلہ
ہمیشہ انکی پارٹی کے اتفا ق رائے سے ہونے والے فیصلے نہیں تھے، بلکہ یہ
فیصلہ کہیں اور سے کئے گئے تھے اس لئے اس پر عملدرآمد کیا گیا حالانکہ اس
وقت خیبر پختونخواہ کے عہدیداران نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ
دینے سے انکار کر دیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے اسمبلیوں
تک پہنچے ہیںاور استعفیٰ دینادرست عمل نہیں، بہر کیف اس وقت ملک میں دو
بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مگر جماعت اسلامی اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت بھی
رکھتی ہے، اس دھرنے کے حوالے سے حکومت نے بھی اپنی حکومت عملی واضع کردی
ہے کہ وہ اس دھرنے کو کسی صورت نہیں ہونے دینگے اور حکومتی طاقت کا بھر
پور استعمال کیا جائے گا لیکن یہ مکافات عمل ہے،جس وقت عمران خان نے
دھرنے کا اعلان کیا تھا تووہ یہی عمران خان تھے جنہوں نے126دن اسلام آباد
بند کیے رکھا، چین کے صدرکو اس دھرنے کی وجہ اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا،
سپریم کورٹ کی دیوار پر شلواریں تک لٹکائی گئیں، پاکستان ٹیلی ویژن کی
عمارت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش تک کی گئی، عمران خان نے اس
وقت سول نافرمانی کی تحریک چلاتے ہوئے لوگوں کو کہا کہ آپ بجلی، گیس کے
بل ادا نہ کریں، بیرون ملک پاکستانیوں کو کہا گیا کہ آپ ہنڈی کے ذریعے
رقم بھیجیں، اس طرح مولانا خادم حسین رضوی کو بھی دوسری جانب دھرنوںکیلئے
پلانٹ کیا گیا، جس نے ناموس رسالت کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے
ہوئے اسلام آباد کو بند کرانے میں اہم کردار ادا کیا، کئی وزراء پر حملے
کئے گئے ،اس قت مولانا طاہر القادری ،عمران خان کے ساتھ تھے جنہوں نے اب
سیاست سے ریٹارمنٹ کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ ان کے مریدوں کو اس وقت
اسٹیبلشٹمنٹ نے ان کے پیر کے ذریعے استعمال کیا گیا اس صورتحال میں جو
کچھ عمران خان نے اس وقت کیا وہسب کچھ ان کے سامنے ہے اس لئے اخلاقی طور
پر وہ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن کا دھرنا درست
عمل نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست میں یہ بازگشت موجود ہے کہ اس وقت فوج اور
موجودہ حکومت ایک ہی بیچ پر ہیں اگر یہ بات درست ہے تو مولانا فضل الرحمن
کس کے ایماں پر اس طرح حکومت کو چیلنج دے رہے ہیں ،دوسری جانب یہ حقیقت
ہے کہ ملک میں جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تب سے لے کر اب تک نہ
صرف مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے بلکہ معاشی مسائل دن بہ دن
بڑھ رہے ہیں ، ملک میں اس وقت غربت، بیروزگاری، بیرون ملک سے سرمایہ کاری
اندرونی اور بیرونی قرضہ جات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، عوام الناس بے
چینی اور اذیت کا شکار ہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اس
صورتحال میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو کچھ
نہ کچھ کرتے ہوئے متحرک ہونا چاہیے تھا ، لیکن یہ دونوں جماعتیںصرف زبانی
جمع خرچ تک محدود رہیں اور اس زور اور شوز سے تحریک نہیںچلا پائیں جس کا
اظہار جمعیت علماء اسلام نے اپنے اعلان میںکہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف
احتجاجی دھرنا دینگے اور آزادی مارچ کرینگے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو آج تک ملک میں
چندسیاستدانوں کے کسی بھی سیاستدان نے عوام کے حقوق کیلئے کسی قسم کی
کوئی تحریک نہیں چلائی پر سابقہ تحریک کے پیچھے کسی اور کا منحوس ہاتھ
ہوتا تھا اور یہ تحریک ملکی اسٹیبلشمنٹ اور غیر ملکی قوتوں کے ایماں پر
چلائی گئیں اور اس میں موجود اسٹیبلشمنٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
، حکومت گرانے کیلئے اس طرح کی جماعتیں بھی استعمال ہوتی رہی ہیں جو کہ
اپنے آپ کو مذہبی جماعت کہتے ہوئے اور اللہ اور اس کے رسولۖ کا نام
استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں، لیکن عملی طور پر ان مذہبی جماعتوں نے آنے
والے ہر فوجی آمر کا ساتھ دیا ، پرویز مشرف کا دورہ اس کی بڑی مثال ہے،
جب ان جماعتوں نے ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق بل پاس کرانے میں اہم
کردار ادا کیا اور کبھی بھی انہوں نے ماضی میں جمہوریت دشمن قوتوں کا
ساتھ دینے پر ندامت اور شرمندگی محسوس نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء
اسلام جو کہ اسٹریٹ پاوربھی رکھتی ہے وہ بھی اس ضمن میں تنقید کے نشانے
پر رہی ہیں کہ یہ پارٹی بھی آمروں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی ہے،
اب جبکہ مولانا کے مارچ میں تقریباً20دن باقی رہ گئے ہیں توکچھ ہی دنوں
میں حکومتی پالیسی سامنے آنے کے امکانات ہیں اگر اس سے قبل مولانا فضل
الرحمن کو گرفتار یا نظر بند کیا جاتا ہے تو صورتحال مزاحمت کی طرف بھی
جا سکتی ہے، ملک میں ایک بار پھر ہنگامے او رشہروں میں احتجاج کا سلسلہ
شروع ہو سکتا ہے، خون خرابے کی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے، وفاقی وزیر
داخلہ اعجا شاہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ144کا نفاذ ہے، اس لئے
کوئی جلسہ جلوس یہاں نہیں ہو سکتا، انہوں نے دبے الفاظوں میں مولانا کو
دھمکی بھی دی ہے، جس کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی مارچ نکلنے
کے بعدحکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی
ہے اور اس کے نتیجے میں جمہوری نظام کو خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں،
شایدیہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اس مارچ میں
نکلنے کیلئے تیار نہیں، دوسری جانب نواز شریف نے اپنے خط میں مولانا کو
پیغام دیا ہے کہ وہ اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو یقینا وہ ان کے ساتھ اس
احتجاج میں شریک ہوتے تاہم نواز شریف نے یہی ہدایت شہباز شریف کوبھی دی
ہے جن کو اس رائے سے اختلاف ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے
کے خواہشمند ہیں، مولانا فضل الرحمن کو مارچ ا ور دھرنے سے روکنا اتنا
مشکل کام نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب سے ایک فون کال پر اس دھرنے کو روکا
جا سکتا ہے، مگر مولانا پرانے کھلاڑی ہیں وہ بھی ان معاملات کو اچھی طرح
جانتے ہیں ،مولانا کاآزادی مار چ عمران خان کی حکومت کے خلاف عوامی رد
عمل کی پہلی قسط ہے اوریہ سلسلہ روکنے والا نہیں،لیکن اس صورتحال میں
اپوزیشن جماعتوں کو انتشار کا شکار ہونے کی بجائے اتفاق رائے سے فیصلہ
کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس صورتحال کے سبب موجودہ حکومت بھی عوام دشمن
فیصلہ کرنے میں احتیاط کا دامن برائے کار لا سکتی ہے،تا کہ وہ موجودہ
حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف ایک آواز بن کر ان پر دبائو مزید
بڑھا سکیں جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہو نہ کہ جمہوریت دشمن قوتیں مولانا
کی آلہ کار بن کر جمہوریت کو شکار کرتے ہوئے ایک بر پھر سے جمہوریت کو
وینٹی لیٹر تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، جس کے کافی
امکانات بھی موجود ہیں کیونکہ اب تین سالوں تک بال باوجود کے کورٹ میں ہے
اور وہ اس بال کو جیسا چاہیں اپنے لئے کھیل سکتے ہیں۔
اب تین سالوں تک بال جنرل باجوہ کے کورٹ میں موجود ہے، وہ اس بال کو جیسا
چاہیں اپنے لئے کھیل سکتے ہیں، اس وقت دھرنے کے حوالے سے جو تازہ ترین
صورتحال ہے اس کے مطابق نواز شریف نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا
ہے کہ مولانا کو پوری طرح سپورٹ  کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے
الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی بات کی تھی، ہم نے کہا تھا کہ نہیں
حالانکہ ان کی بات میں وزن تھا، آج مولانا کی بات کو رد کرنا بالکل غلط
ہو گا، نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے شہباز شریف کو خط لکھ کر بھیج
دیا ہے، لیکن شہباز شریف ابھی تک بوٹ میںبیٹھے ہوئے ہیں، شاید نوازشریف
کے دو ٹوک مؤقف کے بعد پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی کھل کر مولانا
کے ساتھ کھڑے نظر آئیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں میں بھی تحفظات ہیں کہ
شہباز شریف ان کو آگے کروا کے خود جرنیلوں سے ہاتھ ملا لے لگا، کیونکہ
ایسا ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے، بہر کیف ابھی تک جو صورتحال ہے، اس سے
یہ انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کے پیچھے
اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں ہے، ہو سکتا ہے، ان کو سعودی عرب کی حمایت ہو
لیکن عوام کو یہ بات سوچنا ہو گی کہ اسٹیبلشمنٹ کے سارے حالیہ گناہوں کی
معافی صرف نیازی کا چہرہ بدل کر کوئی اور کٹھ پتلی لانے سے ہو جائے تو یہ
افسوسناک عمل ہو گا، ہر بار کوئی بھٹو ،کوئی بینظیر یا کوئی نواز شریف
نہیں آئے گا، عوام کو یہ جنگ فوج کے دوسری جانب ان دوستوں سے جو کہ فوج
پر تنقید کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ جب فوجج سیاست کرتی ہے
تو ہ ایک سیاسی پارٹی ہے، لہٰذا اس کے خلاف نعرے بھی بھی لگیں گے، لوگ
گالیاں بھی دینگے، انڈے بھی ماریں گے، لیکن یہ مسئلہ بندق نکالنے ،کیس
بنوا دینے یا اغواء کروا لینے یا تشدد سے حل نہیں ہو گا،یہ مافیا اسٹائل
جرنیلو ںکو ختم کرنا ہو گا،بد قسمتی سے پاکستان کی فوج سیاست بھی کرے،
بڑے بڑے بلینڈر بھی کرے ،کاروبار بھی کرے اور عوام سے وہ یہ توقع کریں کہ
وہ ان پر سیاسی اظہار رائے بھی نہ کریں تو یہ ممکن نہیں،فوج ہم سب کیلئے
باعث عزت واحترام ہے اور اگر ان کو عزت واحترام کرانا مقصود ہے تو وہ
سیاست اور کاروبار کو خیر آباد کہہ کر بیرکوں میں چلے جائیں، جمہوری
حکومت کے ماتحت کام کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست بھی ہو اور مخالفین
پر بندوق بھی تانی جائے،موجودہ دھرنا اور آزادی مارچ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف
مکافات عمل ہے کیونکہ ایک دن یہ ضرور ہونا ہے ،عوام اپنی نمائندہ حکومت
چاہتے ہیں جو کہ ان کی زبان بولے، ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو، اس وقت
جرنیلو کی کٹھ پتلی نے کشمیر بیچ دیا،افغانستان پر سعودے بازی کر لی،
بھارت سے ہار مان لی،اسرائیل پالیسی تبدیل کر لی اور برے میں صرف اپنے
مخالفین کو جیل ڈالنے کی اجازت مانگی، اگر سابقہ دور میں بھٹو ، بینظیر
یا نواز شریف اس طرح ملک فروخت کرنے پر مان جائے تو اس ملک کا کیا بنتا،
موجودہ دھرنا اور آزادی مارچ کتنا کامیاب ہوتا ہے، یہ تو آنے والا وقت
بتائے گا لیکن جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے یہ اس عمل کا نتیجہ ہے، اس لئے
حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے کر اس مسئلہ کا سنجیدگی سے حل تلاش کرنا
چاہیے، کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر عاضی دیوار تو ڈالی جا سکتی ہے مگر جو
پریشر اس وقت طاقت حاصل کررہا ہے وہ اس دیوار سمیت دیگر کئی اداروں کو
بھی بہا کر لے جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں