اسلام آباد: حکومت کی جانب سے موبائل فون کالز پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز سے پری پیڈ صارفین خاص کر کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
وزیر خزانہ نے موبائل فونز کالز کے ‘ہر 5 منٹ بعد’ 0.75 کی شرح سے اضافی فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صنعتوں کی جانب سے حکومت کے ٹیکس میں مجوزہ اضافے پر احتجاج کیا گیا کیوں کہ اگر ایف ای ڈی نافذ کیا گیا تو 5 منٹ کی کالز جو ابھی ایک روپے 97 پیسے کی ہوتی ہے وہ 2 روپے 72 پیسے کی ہوجائے گی۔
جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے ان صارفین پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا جن کے پاس کالز کرنے کے لیے واٹس ایپ یا اسمارٹ فونز نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں حکومت پر زور دیتا ہوں کہ اس ‘غریب مخالف’ ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
ٹیلی کام ماہرین نے نشاندہی کی کہ موبائل کالز پر اضافی ایف ای ڈی سے یقینی طور پر سب سے زیادہ کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھنے والے متاثر ہوں گے، جن میں مزدور، گارڈز، چوکیدار، ڈرائیورز اور یومیہ اجرت کمانے والے وہ لوگ شامل ہیں، جو روزگار کے سلسلے میں اہلِ خانہ سے دور ہوتے ہیں۔
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار پرویز افتخار کا ماننا ہے کہ کم آمدن والے طبقے کو دور دراز علاقوں میں مقیم اپنے اہلِ خانہ سے رابطے میں رہنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر لمبی کالز کرنے پڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لمبی کالز روزانہ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں جو خاندان کا سماجی تانہ بانہ برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں اور لمبی کالز کرنے والا دوسرا طبقہ زیادہ تر گھریلو خواتین پر مشتمل ہے جو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لیے کالز کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘جن افراد کے پاس خاصہ اضافی وقت ہوتا ہے یہ ان کے لیے فطری اور مجموعی طور پر ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے’۔
پی ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 18 کروڑ 30 لاکھ موبائل صارفین ہیں جن میں سے 9 کروڑ 80 لاکھ براڈ بینڈ/ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور 8 کروڑ 50 لاکھ صرف بنیادی وائس کالز کرتے ہیں۔
پاکستان کی 4 ٹیلی کام کمپنیز میں سے ایک کے سینئر ایگزیکٹو نے کہا کہ کم آمدن والے طبقے کے لیے اسمارٹ فونز کی دسترس انٹرنیٹ تک رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے علاوہ پاکستان کے بہت سے دور دراز علاقوں میں موبائل براڈ بینڈ میسر نہیں ہے۔