وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ حکومت موبائل کالز، انٹرنیٹ پیکجز، ایس ایم ایس پر ٹیکس نہیں لگا رہی ہے۔
وفاقی وزرا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اخوت پروگرام نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیے ہیں جس سے ریکوری 99 فیصد تک ہوئی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ایک سال میں 500 سے 600 ارب روپے دے، عوام کو قرضے ہول سیل فنانسنگ، کمرشل بینکوں سے دلارہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کمرشل بینک جب غریب عوام کو قرضے دیں گے تو ہم انہیں ضمانت دیں گے کہ یہ پیسے واپس آئیں گے’۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ثانیہ نشتر ہر خاندان کی آمدن کے حوالے سے ایک سروے کر رہی ہیں، اس کے مطابق یہ قرضے دیے جائیں گے، غریب کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہے وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہو’۔
انہوں نے کہا کہ ‘کاشتکار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے 2 لاکھ روپے دیں گے اور شہری علاقوں میں 5 لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کرسکے’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘ہم ہر خاندان کو اپنی چھت دیں گے، اس کی حد 20 لاکھ روپے تک ہے کیونکہ شہری علاقوں میں زمینیں مہنگی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کے علاوہ جب غریب کے گھر کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو انہیں علاج کے لیے پیسوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں اپنی چیزیں بیچنی پڑ جاتی ہیں تاہم صحت کارڈ سے ان کے مسائل کا حل ہوگا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ اِسکل ڈیولپمنٹ پر کام کریں تاکہ غریبوں کو روزگار مل سکے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت نے معاشی نمو کو سب تک منتقل کیا ہے اور اس بجٹ میں پی ایس ڈی پی، صنعتوں زراعت وغیرہ سب کو مراعات دی ہیں تاہم اب ہمارا چیلنج مستحکم نمو لانا ہے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ملک کے قابل اکانومسٹ کو اکٹھا کرکے میں ان سے یہ سوال کیا تھا کہ ہمارے ملک کی مستحکم نمو کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ کی معیشت میں طلب بڑھتی ہے تو درآمد بڑھتی ہے اور برآمد اتنی نہیں بڑھتی جس سے ڈالر کم ہوتے ہیں اور وہ آپ چھاپ نہیں سکتے تو آپ کی مالیاتی صورتحال کمزور ہوجاتی ہے اور آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسی وجہ سے ہم ہر وقت آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، ہمیں ڈالر کمانے ہیں جو ہم برآمدات سے ہی کماسکتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری برآمدات جی ڈی پی کا 8 فیصد ہے، کوشش ہے کہ آئندہ 8 سے 10 سال کے درمیان اسے 20 فیصد تک لے جائیں’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘اس کے علاوہ ماہہرین نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی سیونگز بڑھانی ہوں گی اس کے ذریعے سرمایہ کاری ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو معیشت کیسے بڑھے گی، فی الوقت ہماری سیونگز کی شرح 15 سے 16 فیصد ہے اور ہمیں اسے بڑھانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے پاس ریونیو نہیں، ریونیو ایف بی آر اور صوبے اکٹھا کرتے ہیں، ہم نے اس پر کافی چیلنجنگ ٹاسک دیا ہے کہ وہ 47 کھرب تک اکٹھا کریں گے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘کہا جارہا ہے کہ یہ کیسے ہوگا، ہم یہ پورا کرلیں گے، جیسا خان صاحب کہتے ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اسے آئندہ سال کے لیے 58 کھرب کردیا ہے، تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ رسک ہے، ہم نے بہت لوگوں کی معلومات حاصل کرلی ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، ہم اب ان کے پاس جائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے یہی مذاکرات ہوئے ہیں کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگائیں گے بلکہ مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’10 ہزار پی او ایس استعمال کیے ہیں جس سے 150 سے 125 ارب کی فروخت ریکارڈ کی ہے، یہ کچھ بھی نہیں، صرف امتیاز اسٹور کی فروخت 2 سے 3 سو ارب کی ہے مطلب انہوں نے پورے ظاہر ہی نہیں کیے میں اور کا نام نہیں لینا چاہتا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ مزید اداروں کو اِس پی او ایس نظام میں لے کر آئیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پی او ایس پر آنے کے بعد ریٹیلر کچی پرچی پر کام کرنا شروع کردیں گے تو اسے روکنے کے لیے صارفین سے پکی پرچی طلب کریں گے اور اس پر 25 کروڑ روپے تک کے انعامات دیں گے جسے بڑھا کر ایک ارب روپے تک لے کر جائیں گے’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘صارف خود جاکر ان کا گلا پکڑے گا کہ ہمیں پکی پرچی چاہیے ہیں، یہ ترکی اور دیگر ممالک میں بھی طریقہ کار اپنایا جاچکا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘4 علاقوں کو ٹریک اینڈ ٹریس میں لے کر آئیں گے، ہم کرسکتے ہیں گزشتہ سال بغیر پی او ایس کے 160 ارب اکٹھا کیا تھا ہم نے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا ریونیو ہدف جارحانہ ضرور ہے تاہم اگر ہم نے یہ کرلیا تو ایک مالی خلا ہمیں ملے گی جس کو ہم زراعت میں استعمال کرسکیں گے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ملک خوراک کی کمی کا شکار ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہم اہم چیزیں درآمد کر رہے ہیں، ہم نے فصلوں پر توجہ نہیں دی اور اب ہم اس پر توجہ دیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے منصوبے کے مطابق جو مراعات دینی تھیں دی ہیں اور آگے ضرورت پڑی تو اور بھی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم برآمدات میں جو مراعات دے سکتے تھے دی ہیں، ہم صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں رہے بلکہ خصوصی اقتصادی زونز سے ٹیکسز ختم کردیے ہیں تاکہ چین سے سرمایہ کار یہاں آئے اور چیزیں بنا کر برآمد کریں اور ڈالر کمائیں’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے بجلی اور انفراسٹرکچر سمیت اقتصادی زونز پر خرچے کردیے ہیں اور ہمیں یہ پیسے واپس کرنے ہیں اگر ڈالر نہیں کمائیں گے تو پیسے کیسے واپس کریں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم آئی ٹی میں نمو کو بڑھانا چاہتے ہیں جو اس وقت 40 سے 45 فیصد پر ہے اور اسے 100 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘برآمدات کے شعبے میں تقریباً تمام خام مال پر ٹیکس صفر کردیے ہیں کیونکہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار صنعتیں دیتی ہیں’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘اس کے علاوہ ہاؤسنگ کا شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے اور بینکس مطمئن ہیں کہ وہ پیسے جو دیں گے وہ ریکور ہوجائیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری مارک ایپ کی شرح 12 سے 14 فیصد تھی جو لوگوں کے لیے مناسب نہیں تھی کیونکہ کرائے کو اور قسطوں کا موازنہ کیا جاتا تھا تو کرایہ 10 ہزار ہو تو قسط 20 ہزار ہوتی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس پر چھوٹ دے کر لوگوں کی پہنچ تک اسے لے کر آئے ہیں اور امید ہے کہ یہ شرح مزید نیچے جائے گی اور مڈل کلاس کو بھی گھر مل سکیں گے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘سب سے زیادہ ہم نے پاور سیکٹر پر سبسڈیز میں اضافہ کیا ہے اور تمام ڈسکوز کو ٹھیک کرکے ان کی نجکاری کردیں گے تاکہ ہماری نمو صلاحیتی ادائیگی کا استعمال شروع کردیں گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں 5 سے 7 سال کا وقفہ چاہیے جس میں ہم ان صلاحیتی ادائیگی کو موخر کرسکیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پاور سیکٹر کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا ہے، اگر ایسا نہ کریں گے تو ہمیں ٹرانسمیشن میں پیسے جو درکار ہیں اس میں پرائیوٹ سیکٹر پیسے نہیں ڈالے گا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ایک چیز واضح کردوں کہ گزشتہ روز بجٹ میں رکھا تھا کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کا کہا تھا، کابینہ نے اس کی مخالفت کی اور یہ اب ہم یہ نہیں کر رہے ہیں’۔
معیشت کا پہیہ تب ہی چلے گا جب صنعت کا پہیہ چلے گا، خسرو بختیار
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار ٹریکٹرز کی پیداور بڑھے گی تو چھوٹی صنعتیں جو پارٹس بناتی ہیں ان کی پروڈکشن بھی بڑھے گی، 9 فیصد کی نمو رواں سال رہی ہے تاہم ہم نے چیلنج خود کو 6 فیصد کا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پرائیوٹ سیکٹر انویسٹمنٹ اور سیونگز کی شرح میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں آئیں گی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘برآمدات کو تقویت دینے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں، صنعتوں کا پہیہ چلنے کے لیے بجلی اور گیس کی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کا پہیہ تب ہی چلے گا جب صنعتون کا پہیہ چلے گا۔
خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ ‘آٹو سیکٹر آدھی صلاحیت پر چل رہا ہے، 800 سی سی سے کم کی گاڑیوں کی قیمت کم کر رہے ہیں اور باقی سی سیز پر بھی بات چیت چل رہی ہے اور آٹو پالیسی بڑی جامع ہوگی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا فلسفہ میک اِن پاکستان کا ہے، گلوبل ایکسپورٹ ویلیو چین میں پاکستان کے آٹو سیکٹر کو ڈالنا ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ہمارے معاشی حب کراچی میں زمین بہت مہنگی ہے، کراچی میں 1500 ایکڑ کا خصوصی زون پی ایس ڈی پی میں رکھا گیا ہے’۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ برآمدات پر مبنی صنعتیں یہاں آئیں اور انہیں زمین لیز پپر دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘صنعتی نمو میں ہم انجینیئرنگ پر بھی توجہ دے رہے ہیں، ہم بھلے پوری گاڑی برآمد نہ کرسکیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ کم از کم اس کے کچھ پارٹس تو برآمد کریں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ملک کے اندر مستحکم نمو رکھنا ہے تو برآمدات کو بڑھانا ہوگا’۔
آئندہ سال ہماری تجارت اور سرمایہ کاری بہتر ہوگی، عبدالرزاق داؤ
وفاقی وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ ہماری مرکزی حکمت عملی دو حصوں میں ہے ایک برآمدات اور ایک میک اِن پاکستان۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ابھی بھی ڈالرز چاہیے ہیں، ہمیں ٹیکسٹائل پر انحصار نہیں کرنا، اس صنعت نے بہت اچھا پرفارم کیا اور اسے اگلے سال ہم نے 20 ارب تک پہنچنے کا ہدف دیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری توجہ انجینیئرنک، فارما، آئی ٹی، موبائل فونز، جوتے، فوڈ پروسیسنگ وغیرہ ہیں، رواں سال ان میں سے فارماسیوٹیکل کے نتائج اچھے آئے ہیں اور آئندہ سال اس پر زیادہ توجہ دیں گے’۔
وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ‘برآمدات سے پہلے ہمیں چیزیں پاکستان میں بنانی ہوں گی، پچھلے سال ہم نے خام مال پر ڈیوٹیز کم کی تھیں اور اس سال سب سے زیادہ ڈیوٹیز میں کمی کی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ایک ایک آئٹم پر ڈیوٹی کم کی ہے، کافی سالوں سے پاکستان میں کام کر رہا ہوں کبھی اتنی کمی نہیں دیکھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کا پھل رواں سال اور آئندہ سال سامنے آئے گا، پاکستان میں چیزیں بنیں گی اور کاروبار کی لاگت کم ہوجائیں گی اور ہماری برآمدات بڑھیں گی’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘پر امید ہوں کہ آئندہ سال ہماری تجارت اور سرمایہ کاری بہتر ہوگی’۔
احساس پروگرام وزیر اعظم کا ترجیحی پروگرام ہے، ثانیہ نثتر
وزیر تخفیف غربت ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے لیے اس بجٹ میں 260 ارب روپے مختص ہیں، یہ وزیر اعظم کا ترجیحی پروگرام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’10 بڑے پروگرام جو اس فنڈ سے چلیں گے ان پروگرامز میں سب سے پہلے احساس ایمرجنسی کیش کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہے جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو 12 ہزار روپے پہنچائے جائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘احساس کفالت میں جنوری سے 6 ماہی قسط 12 ہزار کی بجائے 13 ہزار کی ہوگی، اس میں ایک کروڑ لوگوں کو شامل کرنے جارہے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام بن رہا ہے، اس میں اپیل کا اختیار بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ لوگ جیسے جیسے ضرورت ہو ہم تک اپنی بات پہنچا سکیں اور ہم ان پر رد عمل دے سکیں’۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘اس کے علاوہ اس پروگرام کی ادائیگی کے لیے دو بینکوں سے شراکت داری ہونے کی وجہ سے ادائیگی کے وقت لوگوں کی قطار لگ جاتی تھی اور اب ہم عوام کو کسی بھی بینک میں اپنے اکاؤنٹ کھولنے کا اختیار دے رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘احساس برائے خصوصی افراد میں 20 لاکھ خاندان شامل ہوں گے، رواں سال ہم احساس نشونما پروگرام کو 50 ضلع تک لے کر جائیں گے اور 150 احساس نشونما سینٹر کھولیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ احساس کے تعلیمی وضائف کی پالیسی کو پاکستان کے سارے اضلاع تک لے گئے ہیں، نظام ڈیجیٹل کردیا ہے اور اب صرف پرائمری نہیں سیکنڈری کے بچوں کو بھی یہ وضائف دیے جائیں گے جبکہ وظیفوں کو بھی بڑھا دیا گیا ہے اور لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کا وظیفہ کردیا گیا ہے۔
ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ رواں سال 65 ہزار میرٹ پر اسکالر شپس دی ہیں اور آئندہ سال بھی اتنی ہی دی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم احساس تحفظ کے نام سے نیا پروگرام لے کر آئیں گے، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس صحت کارڈ نہیں اور جو سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق پناہ گاہوں کا سلسلہ پھیلایا جائے گا اور اس کا معیار بہتر رکھا جائے گا، کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام میں بھی وسعت آئے گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘احساس پروگرام کے دائرے کے نیچے ملک کے 110 اضلاع میں بلا سود قرضے کا پروگرام بھی چل رہا ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ احساس اشیا کے پروگرام پر بھی غور کیا جارہا ہے اور آئندہ ماہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اس پر عمل در آمد شروع ہوجائے اور اس کے ذریعے کمزور طبقے کو دکان سے سستی اور متواسط طبقے کو عام قیمتوں میں اشیا فراہم کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ احساس ڈیجیٹل ہنر کا بھی پروگرام حکومت لارہی ہے جس کے لیے بھی فنڈ بجٹ میں مختص ہے۔
ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ ‘سروے 92 فیصد مکمل کرلیا گیا اور اس سے پاکستان کے ہر گھر کی معاشی صورتحال سامنے آئے گی، جون کے آخر تک یہ مکملم کرلیا جائے گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘گزشتہ ہفتے احساس ون ونڈو سینٹر کا اجرا ہوا تھا اور ہمارا وعدہ ہے کہ یہ ہم پاکستان کے ہر ضلع میں کھولیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘گورننس سے متعلق اصلاحات پر بھی تفصیلی کام کیا جائے گا’۔
مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے کم رکھنے کی کوشش کریں گے، وزیر خزانہ
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں سرکاری ملازمتوں کو بہتری کرنے کی ضرورت ہے جو ملازمین زیادہ کام کرتے ہیں اور جو کم کرتے ہیں ان میں فرق ہونا چاہیے، بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ حکومت ان مشکلات سے نہیں گھبراتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومتی نظام کو 60 کے دہائی جیسا بنانا ہے، ایک سے 2 سال میں یہ نہیں ہوگا، اس نظام میں بہت سیاسی مداخلت ہوگئی ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے 5 سے 7 سال لگیں گے اور اس کے بعد تنخواہوں کے مسئلے حل ہوجائیں گے۔
آئندہ مالی میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد رہنے اور پاور سیکٹر کو ٹیرف سبسڈی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہیں گے کہ ہم اگر انہیں پیسے دے رہے ہیں تو پاور سیکٹر اپنی کارکردگی بھی بہتر بنائیں اور نقصانات کم کرے، ریکوری بہتر بنائیں اور اگر بیرونی منڈیوں میں کوئی بھونچال نہ آئے تو مہنگائی کی شرح 10 فیصد کم رہے گی۔
اشیائے خورونوش کی مہنگائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ جب تک زرعی پیداوار نہیں بڑھے گی خوراک کے معاملے خود کفیل نہیں ہوں گے اس وقت تک بین الاقوامی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کاشت کاروں کو پیداور بڑھانے کے لیے مراعات دے رہے ہیں اور آڑھتیوں کی منافع خوری کو روکنا ہوگا جس سے کاشتکار کا استحصال ہورہا ہے جس کے لیے ہمیں کولڈ اسٹوریج قائم کرنے کے ساتھ ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جس میں کاشتکار کا استحصال نہ ہو اور وہ مڈل مین کے بجائے براہِ راست ہول سیل مارکیٹوں میں زرعی اجناس فروخت کرے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ گڈ گورننس کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ہر ضلع میں عہدیدار ان چیزوں کی نگرانی کر کے خامیوں کی نشاندہی کریں گے، اور مختصر مدت کے لیے 4 سے 5 اہم اور روزمرہ استعمال کی اجناس کے ذخائر بنائیں گے اور جن منڈیوں کی قیمتیں زیادہ ہوئی وہاں بھیج دی جائیں گی۔
آئی ایم ایف کے علاوہ پیسے لینے کیلئے بہت سے عالمی ایونیوز موجود ہیں، شوکت ترین
بلواسطہ ٹیکس کے بارے میں شوکت ترین نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے شروع میں بالواسطہ ٹیکسز کا ہی سہارا لیتے ہیں اور جب آمدن مستحکم ہوجاتی ہے تو براہِ راسٹ ٹیکس بڑھنا شروع ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلے نہیں ہیں ان کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے اور جولائی کا جائزہ نہیں ہوا تو ہم ستمبر تک اہداف پوراکرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ہماری منزل ایک ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہم پائیدار ترقی کی جانب جائیں اور پھر آہستہ آہستہ نمو کریں جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ٹیرف اور انکم ٹیکس میں اضافہ کرنا مناسب طریقہ نہیں ہے اور ہم ٹیرف کے بجائے گنجائش کا استعمال بڑھائیں، ریکوری زیادہ کریں، لائن لاسزز کم کریں جس میں تھوڑا وقت لگے گا جس سے ہمارا اور آپ کا مقصد پورا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کی آمدن پر لگنے والے ٹیکسز میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا ان پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، ہم ڈیجیٹائزیشن کر کے ٹیکس بیس کو وسیع کریں گے، یہ آئندہ جون تک کا منصوبہ ہے۔
ساتھ ہی وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں اور بھی راستے ہیں جہاں سے پیسے اکٹھے کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 کھرب روپے اکٹھا کرنے کے لیے پیٹرولیم لیوی نہیں بڑھائیں گے ہم انتظار کریں گے، ایران سے پابندی ہٹنے کی صورت میں وہ تیل کی پیداوار بڑھا دیں گے جس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آئے گی اور اس کے اثرات ہم اپنے پاس بھی رکھیں گے ساتھ ہی سعودی عرب کے ساتھ تاخیر کی ادائیگیوں کے حوالے سے بات چیت ہوگئی ہے لہٰذا پیٹرولیم کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔
ٹیکس ریونیو کے ہدف کے بارے میں شوکت ترین نے کہا کہ پہلے ٹیکس بیس 3800 ارب تھی اور معیشت سکڑ رہی تھی شرح نمو 2.1 فیصد تھی تو شبر زیدی اس لیے 55 سو ارب روپے ریونیو کا ہدف پانے میں ناکام رہے لیکن آج 4700 ٹیکس بیس ہے اور شرح نمو 5 فیصد ہے۔