معین اختر ضیاء محی الدین کو کیوں گرو مانتے تھے؟

معین اختر ضیاء محی الدین کو کیوں گرو مانتے تھے؟


لیجنڈ اداکار معین اختر مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ انہیں جو شہرت ملی وہ ضیاء محی الدین کی مرہونِ منت ہے، جو مقام آج معین اختر کو حاصل ہے اس میں ضیاء صاحب کی تربیت کا بڑا دخل ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کراچی سے ’ضیاء محی الدین شو‘ شروع ہو رہا تھا جس کے ایک سیگمنٹ کے لیے معین اختر کا آڈیشن ہونا تھا۔

بقول معین اختر ایک روز ٹی وی سے ظہیر بھٹی کا پیغام آیا کہ میں ضیاء صاحب سے مل لوں، خیر میں جب ٹی وی پہنچا تو ظہیر بھٹی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے ایک رعب دار آواز آئی، جوں ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو اپنے سامنے ضیاء محی الدین کو دیکھ کر میری سٹّی گم ہو گئی۔

ضیاء صاحب مجھ سے کہنے لگے، جی فرمائیے!

میں گھبرا گیا تھا، میں نے کہا جی ظہیر بھٹی نے بلوایا ہے۔

ضیاء صاحب کہنے لگے، وہ تو اس وقت نہیں ہیں۔

میں شکریہ کہہ کر کمرے سے نِکل آیا۔

معین اختر کے مطابق وہ اس کے بعد رشید عمر تھانوی مرحوم کے کمرے میں گئے اور ان سے درخواست کی کہ میری ملاقات ضیاء صاحب سے کروا دیں، وہ ظہیر بھٹی کے کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، رشید عمر تھانوی مجھے ظہیر بھٹی کے کمرے کی طرف لے کر چل پڑے۔

ضیاء محی الدین کسی کام میں مگن تھے، انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو رشید عمر تھانوی سے کہا!! ہاں رشید…؟

انہوں نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ضیاء صاحب یہ بہت ٹیلنٹڈ لڑکا ہے، آپ اپنے شو میں اسے ٹرائی کیجئے۔

اسی دوران ظہیر بھٹی بھی آ گئے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، آپ کو تو کافی دن پہلے بلوایا تھا۔

پھر انہوں نے ضیاء صاحب سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہی وہ لڑکا ہے، جس کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا، اس نے الیکشن کی ٹرانسمیشن میں بہت اچھے Skits کیے تھے۔

ضیاء صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔

مجھ پر بہت گھبراہٹ طاری تھی، وہ جن کا ایک زمانہ شیدائی ہے، جن کے فن کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر ہوچکا تھا، جن کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ فخر محسوس کرتے تھے، وہ میرے سامنے تھے، میں ان کی موجودگی میں ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پا رہا تھا، میں ضیاء محی الدین کی شخصیت کے سحر میں کھو گیا تھا، پھر میں ضیاء صاحب سے اجازت لے کر رشید عمر تھانوی کے ساتھ باہر آگیا، جاتے ہوئے صرف اتنا یاد ہے کہ ظہیر بھٹی کی آواز آئی معین! کل شام تم سے ملاقات ہونی چاہیے، آپ سے بات کریں گے۔

معین اختر کے مطابق میں نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس لوٹ آیا، دوسرے روز میں خصوصی طور پر تیار ہو کر جو بہترین لباس میرے پاس تھا، پہن کر ٹی وی چلا گیا۔

ظہیر بھٹی کمرے میں اکیلے تھے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا، بیٹھو، پھر کہنے لگے معین! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو پہلا ضیاء محی الدین شو ہو رہا ہے، اس میں تم سے ایک 10 منٹ کی پرفارمنس کروانی ہے، لیکن کوئی نئی چیز ہونا چاہیے، جو تم اسٹیج پر کرتے ہو، وہ نہیں چاہیے۔

پھر کہنے لگے، کل ضیاء صاحب تم سے انٹرویو کریں گے، انہوں نے مجھے ٹائم بتا دیا اور پھر میں خوشی خوشی گھر لوٹ آیا اور گھر والوں کو بتایا اور والدہ سے کہا، آپ دعا کریں کہ میں اس شو میں کام یاب ہوجاؤں۔

اگلا دن میری زندگی کا اہم ترین دن تھا، ضیاء محی الدین نے میرا انٹرویو کرنا تھا، میں خاصہ ڈرا ہوا تھا کہ نہ جانے وہ انٹرویو میں کیا پوچھیں، ان کی قابلیت کے آگے ہمارا چراغ کہاں جل سکتا تھا، سچ بات تو یہ ہے کہ میں نروس تھا، اسی دوران میں ٹی وی پہنچ گیا، ڈرتے ڈرتے ظہیر بھٹی کے دروازے پر دستک دی، اجازت ملنے پر میں کمرے میں داخل ہوا، ضیاء صاحب موجود تھے، میں نے ان کو سلام کیا، ہاتھ ملایا، پھر ظہیر بھٹی سے ہاتھ ملایا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ضیاء صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگے اور بہت ہی شائستہ اور مہذب انداز میں ان کی انگریزی کے ساتھ ساتھ ان کی اردو بھی سننے والی تھی۔

معین اختر کے مطابق ضیاء محی الدین کا یہ کمال تھا کہ جب اردو بولتے تو اس میں ایک لفظ بھی انگریزی کا استعمال نہیں کرتے اور جب انگریزی بولتے تو اس میں ایک لفظ بھی اردو کا نہیں بولتے تھے، مجھ جیسا آرٹسٹ ان کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالنے کی کیا جسارت کر سکتا ہے لیکن چوں کہ آج میں جو بھی ہُوں، اس میں ضیاء صاحب کی تربیت کا بڑا دخل ہے۔

ضیاء صاحب نے بات مختصر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نئی چیز ہونا چاہیے، جو پہلے آپ نے ٹی وی پر نہ کی ہو۔

میں نے ان دنوں ایک نیا خاکہ تیار کیا تھا، جس میں الیکشن کے چند Compares کے انداز کی کاپی کی تھی، جن میں صدیق ارشد، قریش پور، وقار احمد وغیرہ تھے۔

ضیاء محی الدین شو کے اسٹیج سے ایک جھلک
ضیاء محی الدین شو کے اسٹیج سے ایک جھلک

جب میں نے وہ خاکہ ضیاء صاحب کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے، بہت ہنسے، کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ کرنا چاہیے، پھر کہنے لگے، اس میں ابھی کچا پن ہے، اس پر خوب محنت کریں، مجھے ان کے شو میں کام مل گیا تھا اور میں اسے اپنی خوش نصیبی تصور کر رہا تھا۔

اب مجھے کیا پتہ تھا کہ قدرت کی طرف سے مجھ پر شہرت کے دروازے کھلنے والے تھے، خدا خدا کر کے شو کا دن آپہنچا، دوپہر سے ہم ریہرسل میں تھے، ضیاء صاحب بڑے Perfectionist ہیں، ہر ہر پل وہ اسکرپٹ کی نوک پلک دُرست کر رہے تھے اور ٹہل ٹہل کر کچھ یاد بھی کر رہے تھے، میں اسٹیج کے سائیڈ میں کھڑا ان کی ہر حرکت کا باغور جائزہ لے رہا تھا، میں ان سے بہت متاثر تھا، لیکن ان کے ساتھ تھوڑا کام کر کے میں ان کا دیوانہ ہوگیا، اتنی محنت، اتنی لگن اور اتنے انہماک سے کام کرتے ہوئے میں نے پاکستان میں کسی دوسرے آرٹسٹ کو نہیں دیکھا، ان کا 10 فی صد بھی اگر ہم اپنے کام پر توجہ دیں، تو ہم کہاں سے کہاں نکل جائیں۔

شو کی ریکارڈنگ شروع ہونے والی تھی، ضیاء صاحب مسلسل ٹہل رہے تھے، میں ڈرتے ڈرتے ان کے پاس گیا اورکہا سر! میرے لیے دعا کیجیئے گا۔

مسکرا کر انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “Wish you all the best” ۔

شو شروع ہوا، آواز آئی، آپ کی خدمت میں ضیاء محی الدین! پھر تالیوں کا ایک نہ رکنے والا طوفان تھا اور پھر شو نہایت کامیابی سے چلتا رہا، اسی دوران انہوں نے میرا اعلان کیا، میں داخل ہوا اور اپنی پرفارمنس کی، چوں کہ جن Compares کے انداز میں نے پیش کیے، ان سب سے ہال میں موجود لوگ واقف تھے، خوب تالیاں بجیں۔

سارے لوگ ضیاء صاحب کو مبارک باد دے رہے تھے اور وہ سب کا مسکرا مسکرا کر شکریہ ادا کررہے تھے، لیکن ان کا بڑا پن دیکھیے کہ اس بھیڑ میں انہوں نے پکارا

“?Where is Moin”

میں نے جب اپنا نام سُنا تو میں ان کی طرف لپکا، انہوں نے زور سے میری پیٹھ ٹھونکی کہنے لگے “Very well done” اچھا تھا، لیکن بہت اچھا بھی تمہیں ہی کرنا ہے اور یہ بات میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا کہ بہت اچھا بھی مجھے ہی کرنا ہے۔

میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا، جب وہ شو آن ایئر ہوا تو ضیاء صاحب کا ڈنکا تو پہلے ہی بج رہا تھا، اس میں اور شدت آگئی اور لوگوں نے کہا وہ نیا لڑکا معین اختر بھی خُوب تھا، میں نے اصل شہرت کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں