ماہر نفسیات نے عوام کو کورونا وائرس فوبیا سے خبردار کردیا


پشاور: ماہر نفسیات نے عوام کو کورونا وائرس کے خوف سے خبردار کردیا کیونکہ اس سے خود تشخیص اور خود سے دوا لینا عام ہورہا ہے۔

انہوں نے عوام کو تجویز دی کہ ’گھبرائیں نہیں‘ اور ان کو گھروں میں رہنے اور وبا کے خاتمے تک سماجی دوری اپنانے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام طبی تجاویز کے خلاف لیبارٹریز کی جانب بھاگ رہی ہے تاکہ ٹیسٹ کرواسکے۔

کنسلٹنٹ ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے ڈان کو بتایا کہ ’ایک پہلو یہ ہے کہ لوگ کورونا وائرس وبائی بیماری کی شدت کو سمجھ نہیں رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کررہے ہیں جبکہ کچھ افراد کو علامات نہ ہونے کے باوجود وائرس ہونے کا شدید فوبیا ہوگیا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو شدید خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جس سے ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونا، منہ خشک ہونا اور پورے جسم کا سن ہونا جیسی علامات سامنے آرہی ہیں اوراس کے علاوہ آدھی رات کو وہ (پینک اٹیک) گھبراہٹ سے جاگ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ’ایسے لوگوں کو پریشان کن خیالات آتے ہیں کہ اگر وہ مرگئے تو ان کے اہلخانہ، بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا، وہ تفتیش اور علاج کے لیے نفسیاتی نوعیت کے دم گھٹنے اور سانس کی تکلیف کے ساتھ ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے اہلخانہ کے افراد مرنے والے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ پڑھے لکھے افراد بھی انفیکشن کے خوف سے شہروں کو چھوڑ کر گائوں منتقل ہوگئے ہیں، ’لوگ بھی خوف و ہراس میں مبتلا ہو رہے ہیں اور غیر ضروری طور پر کھانے کی چیزیں، ٹشو پیپرز، ٹوائلٹ پیپرز اور سینیٹائزر خریدنا شروع کردیے ہیں، ماسک اور سینیٹائزر مارکیٹوں سے غائب ہوگئے ہیں‘۔

ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ انفیکشن کے بارے میں فوبک اضطراب کی شکایت میں مبتلا افراد خود کو تجاویز دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں بخار، کھانسی، گلے یا سینے میں انفیکشن ہے، انہیں کچھ نہیں ہوگا، انہیں لیٹنا چاہیے، گہری سانسیں لینا چاہئیں اور جب تک ہوسکے اسے روکیں اور پھر اسے آہستہ آہستہ چھوڑیں اور دن میں تین بار اسے دہرائیں‘۔

ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ وہ اس مشق کے ذریعے اپنے آپ کو کسی آرام دہ اور پرسکون مقام پر لے جا کر تھراپی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس میں 95 فیصد انفیکشن سے جسم کا قوت مدافعت کا نظام لڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف پانچ فیصد متاثرہ افراد کو پھیپھڑوں اور سانس کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شدید فوبیا والا شخص نفسیاتی ماہر سے رابطہ کرے‘۔


اپنا تبصرہ لکھیں