سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کو رٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کے خلاف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور سابق واپڈا تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے وکیل منور سلام نے استدلال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اور یہ چارج کیوں ہوتی ہے، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے اپنے اختیار سے باہر جا کر فیصلہ دیا۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے فیصلے میں کہا کہ بجلی کے 500 یونٹ سے زائد استعمال پر اضافی چارجز وصول کیے جائیں جس پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے درخواست میں تو یہ استدعا کی ہی نہیں گئی تو فیصلہ کیسے دیا گیا ؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے میں 500 یونٹ کی حد کس بنیاد پر مقرر کی گئی؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ آئینی و قانونی طور پر قابل عمل نہیں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل میں صارف کمپنیاں 15 دن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف اپیلیں دائر کریں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل 10 دن میں اپیلیں مقرر کرے۔
بجلی کمپنیوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مئی 2022 میں جب فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لگایا گیا تب نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی تو جج کو اس پر فیصلہ دینا چاہیے تھا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل رکن بینچ نے اپنے اختیار سے باہر نکل کر فیصلہ دیا جس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز آرٹیکل 199 پڑھنا بھول جاتے ہیں، کیا ہائی کورٹ کا جج یہ کہہ سکتا ہے کہ 500 یونٹ بجلی استعمال پر بل یہ ہو گا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت نیپرا کے تکنیکی معاملات نہیں دیکھ سکتا، لاہور ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہو گا تکنیکی معاملات نیپرا کے سامنے ہی اٹھائے جائی
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیپرا اور ڈسکوز کو ٹربیونل میں معاملہ چیلنج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کمپنیز اور صنعتوں سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد واجب الادا رقم نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل کے فیصلے سے مشروط ہو گی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک ہزار نوے درخواستیں نمٹاتے ہوئے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کو رٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل جلد از جلد قانونی میعاد کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے نیپرا کی جانب سے فیول پرائس ایڈجسمنٹ لیوی، نرخوں کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور مخصوص مدت کے دوران ٹیرف حیثیت کی صنعتی سے کمرشل میں تبدیلی کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں عدالت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو بجلی پیدا کرنے کے سستے ذرائع تلاش کرنے کی ہدایت کی اور وفاقی حکومت کو 500 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو زیادہ سے زیادہ سبسڈی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس باقر علی نجفی نے اگست 2022 میں سیکڑوں صارفین کی جانب سے دائر درخواستوں پر 10 اکتوبر 2022 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔
گھریلو، صنعتی اور کمرشل صارفین درخواست گزاروں نے جولائی کے مہینے کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دیگر لیویز کی وصولی کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ نیپرا اپنے ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت مکمل طور پر تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے کا اہل نہیں تھا۔
جسٹس باقر نجفی نے نیپرا کو ہدایت کی کہ صارفین کو ماہانہ چارجز کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ 7 روز سے زیادہ کی نہیں ہوگی اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ قانونی مدت سے زیادہ نہیں ہو۔
جج نے نیپرا سے کہا تھا کہ وہ گھریلو صارفین کی ادائیگی کی گنجائش سے زیادہ ٹیرف وصول نہ کرے
انہوں نے ریگولیٹر کو ہدایت کی تھی کہ لائن لاسز اور کم کارآمد پاور پلانٹس کی بنیاد پر زائد چارجنگ کی ذمہ داری طے کی جائے اور مالیاتی بوجھ بھی کمپنیاں ایک معقول تناسب کے تحت بانٹیں گی۔
انہوں نے ریگولیٹر کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ بجلی پیدا کرنے کے سستے طریقوں کو تلاش کرے اور اس کی فوری دستیابی کے لیے میکانزم تیار کرے، اس کے علاوہ طلب کی بنیاد پر بجلی کی ہموار فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
جج نے اتھارٹی کو صارفین کی بات سنے بغیر یکطرفہ طور پر ٹیرف کی قسم کو صنعتی سے کمرشل میں تبدیل کرنے سے روک دیا تھا۔
جسٹس باقر نجفی نے حکومت کو ہدایت کی کہ ایسے اضافی ٹیکسز کا مطالبہ نہ کرے جس کا توانائی کے استعمال سے کوئی تعلق نہ ہو اور دیگر ذرائع سے وصول کیے جاسکتے ہوں۔
جج نے اپنے 81 صفحات پر مشتمل فیصلے میں حکومت کو ’بجلی پیدا کرنے کے شمسی، پن، جوہری اور ہوا کے ذرائع دریافت کرنے کی اور دیگر ممالک سے بجلی کے ذرائع کی سستی خریداری کا انتظام کرنے کی ہدایت کی‘۔
جج نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ نیپرا جو کہ ایک خود مختار ادارہ ہے، اس نے پاور سیکٹر میں ریگولیٹری انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ قابل اعتماد، مؤثر اور سستی بجلی کی ضمانت کے لیے ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے اور اس کی پیروی کرنے میں ناکام رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیپرا نے اتنے سالوں میں گردشی قرضہ بڑھنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
جج نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جنریشن اور سیکٹر کی خامیوں کی بڑھتی ہوئی لاگت، ٹیرف کے طریقوں میں بے ضابطگی اور ٹیرف کے تعین میں تاخیر گردشی قرض کے مسئلے کی ذمہ دار ہے۔