اسلام آباد کی خصوصی عدالت سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں کن دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی۔
خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
آئین کا آرٹیکل 6 کیا ہے؟
سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی
ذرائع کے مطابق اکثریتی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم نے کیا جب کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
150 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائے گا
ذرائع کا بتانا ہے کہ پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ 150 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جو کہ اب سے کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔
رجسٹرار خصوصی عدالت راؤ عبدالجبار کا کہنا ہے کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ کچھ ہی دیر میں جاری کر دیا جائے گا اور فیصلے کی کاپی مقدمے کی پارٹیوں کو دی جائے گی۔
راؤ عبدالجبار کا کہنا ہے کہ فیصلے کے قانونی تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔
سنگین غداری کیس کا پس منظر
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا۔
2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا۔
سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا۔
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ْ
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی۔
استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامدکو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔