فیصل واڈا نے جھوٹا بیان حلفی کیسے دیا، اس کے اپنے نتائج ہیں، عدالت


اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر آبی امور فیصل واڈا کو 8 فروری تک جواب جمع کرانے کا موقع دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جھوٹا بیان حلفی کیسے جمع کرایا اس کے اپنے نتائج ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے وفاقی وزیر فیصل واڈا کی نااہلی کے لی دائر درخواست پر سماعت کی جہاں فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل نے درخواست خارج کرنے کے لیے متفرق درخواست دائر کی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کا خواجہ آصف کیس میں فیصلہ موجود ہے۔

درخواست گزار کے وکیل جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے فیصل واڈا کے کاغذات نامزدگی اور بیان حلفی عدالت میں پیش کر دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں آج سولھویں پیشی ہے اور عدالت نے فیصل واڈا سے ایک سال قبل جواب طلب کیا تھا جو ابھی تک نہیں دیا گیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم فیصل واڈا کو جولائی 2023 تک کی تاریخ دے دیتے ہیں، ہم نے کہا تھا کہ فیصل واوڈا عدالت میں جواب جمع کرائیں۔

فیصل واڈا کے وکیل کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ جو بھی سوالات آپ اٹھا رہے ہیں ان میں کوئی نئی چیز نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا فیصل واڈا نے الیکشن کمیشن میں جواب جمع کرایا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں دلائل جاری تھے لیکن کورونا کی وجہ سے کیس نہیں لگ رہا۔

فیصل واڈا کے وکیل نے بتایا کہ میری کیس خارج کرنے کی درخواست پر درخواست گزار جواب دیں گے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی تو عدالت نے دوسرے فریق سے جواب مانگا ہی نہیں، پہلے مجھے جواب دیں۔

جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ سول کورٹ نہیں ہے جہاں آپ درخواست دیں اور ہم دوسرے فریق سے جواب مانگ لیں، متفرق درخواست پر پہلے عدالت کو مطمئن کریں پھر دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے مؤکل کا رویہ درست نہیں ہے، آٹھ سے دس سماعتیں ہو چکی ہیں، مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں جواب کس طرح لوں، یہ نوٹس کی کاپی کابینہ کو بھیج دیتا ہوں وہیں سے جواب آ سکتا ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے وکیل سے پوچھا کہ کیا فیصل واڈا دوہری شہریت رکھتے تھے، انہوں نے امریکی شہریت کب چھوڑی، آپ نے ہدایات لی ہوں گی اس حوالے سے عدالت کو بتائیں۔

فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ مجھے کچھ وقت دیا جائے میں اس عدالت کو متفرق درخواست پر مطمئن کروں گا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے بھی آپ نے ہی وقت مانگا تھا۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ہی تین اراکین قومی اسمبلی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ اسی عدالت نے کیا تھا، ان کے وکلا نے عدالت کو مطمئن کیا اور عدالت نے درخواستیں مسترد کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ عدالتیں فیصلے نہیں کرتیں، کوئی نہیں پوچھتا کہ عدالتیں فیصلے کیوں نہیں کرتیں، اگر آج مؤرخ یہاں اس عدالت میں بیٹھا ہوتا تو لکھتا، جس پر وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اگر فیصل واڈا جواب نہیں دینا چاہتے تو بتا دیں ہم الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔

اس موقع پر جہانگیر جدون نے فیصل واڈا کا بیان حلفی عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ دوہری شہریت والا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اگر فیصل واڈا نے امریکی شہریت لی تو پاکستانی تو سرینڈر ہو جاتی ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا نے جھوٹا بیان حلفی کیسے دیا ہے، اس کے اپنے نتائج ہیں، الیکشن کمیشن کو تو یہ معاملہ خود ہی دیکھ لینا چاہیے تھا۔

عدالت نے فیصل واڈا کو 8 فروری تک جواب جمع کرانے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

دوہری شہریت کا معاملہ

خیال رہے کہ رواں برس کے اوائل میں ایک انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ عام انتخابات 2018 میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی کے وقت وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا دوہری شہریت کے حامل تھے۔

وفاقی وزیر فیصل واڈا کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی 11 جون 2018 کو جمع کروائے، جو الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتے بعد 18 جون کو منظور ہوئے۔

تاہم اس معاملے کے 4 روز بعد پی ٹی آئی، ایم این اے نے کراچی میں امریکی قونصلیٹ میں اپنی شہریت کی تنسیخ کے لیے درخواست دی تھی۔

واضح رہے کہ قانون کے مطابق دوہری شہریت کے حامل فرد کو اس وقت تک الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں جب تک وہ دوسری شہریت ترک نہیں کر دیتے۔

اسی معاملے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں 2 قانون سازوں ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے وقت دوہری شہریت پر نااہل کردیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں