ہارورڈ:
اگر آپ کہتے ہیں کہ فکریں اور پریشانیوں نے سر سفید کردیا ہے تو یہ درست ہے اور اب اس کی سائنسی وجوہ بھی معلوم ہوچکی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ مسلسل پریشانی سے بال سفید ہوسکتے ہیں۔ سفید بالوں کے مساموں کی گہرائی میں موجود اسٹیم سیل میں قدرتی رنگ (پِگمنٹ) بنانے کی صلاحیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے بالوں کو سیاہ بنانے کا عمل بالکل رک جاتا ہے۔
اس سے قبل کسی صدمے، شدید دکھ اور پریشانی سے بھی بال سفید ہوسکتے ہیں بلکہ یہ عمل ہفتوں اور مہینوں میں بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں یا چی سو نے کہا کہ ذہنی تناؤ اور پریشانیاں جلد اور بالوں کو شدید متاثر کرتی ہیں۔
پروفیسر یاچی سو نے کہا کہ ذہنی دباؤ جسم پر برے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ہم نے بالوں کی سفیدی کے درمیان اس کا تعلق واضح کیا ہے۔ چوہوں میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان میں تناؤ بڑھا ویسے ویسے اسٹیم سیل نے بالوں کے لیے گہرا رنگ بنانا ختم کردی۔ اس کے بعد بال سفید ہوگئے اور یوں ہمیشہ کے لیے ان کا رنگ تبدیل ہوگیا۔
اسی ٹیم نے بتایا کہ شدید دباؤ کی صورت میں سمپیتھٹک نروس سسٹم (ایس این ایس) ایک نیورو ٹرانسمیٹر نوریپانیفرائن خارج کرتا ہے جس سے اسٹیم سیل کی تعداد ایک مقام سے حرکت پذیر ہوکر بالوں کے مساموں کے سوراخوں میں جمع ہوجاتی ہے اور اس سے بالوں کی سفیدی کا براہِ راست تعلق واضح ہوتا ہے۔