پاکستان میں ہزاروں انسانی زندگیوں کو ختم کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں عدل اور انصاف ہو پاکستان کی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہاں رہنے والے شہریوں کے جان و مال کو وہ یقینی بنائیں اور معصوم انسانی جانوں کو پل بھر میں گوشت کے چھتڑوں میں تبدیل کرنے والوں دوسروں کیلئے کو عبرت کا مقام بنائیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کی شفافیت برقرار رہے اور کوئی بے گناہ شخص اگر ملزموں کے کٹھرے میں کھڑا ہے تو اس سے بھی انصاف ہو ،فوجی عدالتیں سال 2015ء میںد و سال کیلئے قائم کی گئیں تھیں اس وقت ججوں کی عالمی تنظیم سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور وکلاء نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ یہ عدالتیں قائم نہ کریں اب جبکہ دو سال کا عرصہ ختم ہو گیا ہے تو ان عدالتوں کو مزید توسیع دی جا رہی ہے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی مزید توسیع دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔حزب اختلاف کی حمایت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کیے گئے 9نکات میں سے 4نکات تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں قومی اسمبلی سے اٹھائیسویں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گیا ہے۔اس طرح آئین اور آرمی ایکٹ میں ہونے والی ان ترامیم کے بعد ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی مزید توسیع کر دی گئی ہے۔پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کے 4نکات کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔جس کے تحت کسی بھی ملزم کو گرفتاری کے 24گھنٹوں میں اس کو عدالت میں پیش کیا جانا ضروری ہو گا۔ جبکہ ملزم کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ اس کو کسی جرم میں گرفتار کیا گیا۔اس ضمن میں سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی جنہوں نے دو سال قبل پہلے ان عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں اس وقت وہ آبدیدہ بھی تھے جبکہ اب دو سالوں کے بعد اب ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معمالہ پر سیاسی جماعتوں کے متفق ہونے پر رنجیدہ ہیں سینٹ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر دو سال قبل 21ویں آئینی ترمیم کو پورے ایوان کی کمیٹی میں زیر بحث لایا جاتا تو شاید یہ آج حالات دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اس لیے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ہم دوبارہ اس جگہ پر آگئے ہیں جہاں پر دو سال قبل کھڑے تھے۔پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو فوجی عدالتوں کے معاملہ پر تحفظات ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ زہریلا گھونٹ پی رہی ہے مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لیے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ناگزیر ہے۔بہرکیف حزب اختلاف اور تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی بیساکھی حکومت کو مزید فراہم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ان عدالتوں میں توسیع یقیناً ملکی عدالتی نظام پر بد اعتمادی کا مظہر ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سیاستدان انتہائی نااہل اور نکمے ہیں جو کہ گزشتہ دو سالوں میں پارلیمنٹ کے ذریعہ ایسا نظام وضع نہ کر سکے جو کہ حقیقی معینوں میں انصاف فراہم کرنے کیلئے قوم کو رہنما اصول متعین کرتے ہوئے فوری انصاف دلانے اور وہ اس کیلئے کوئی پلان تشکیل دیتے بلکہ اس کے برعکس انہوں نے ایک بار پھر یہ وزن فوجی عدالتوں کے کاندھوں پر منتقل کرنے کیلئے رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے دو سال مزید کیلئے فوجی عدالتوں کو عوام پر مسلط کر رہا ہے لیکن کیا یہ فوجی عدالتیں ہی تمام معاملات کا حل ہیں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں اس نظام کو مزید توسیع دینے کے بعد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں کو مزید اپ گریڈ کرنے سے متعلق کام بھی مزید التواء کا شکار ہے۔فوجی عدالتیں ایک عارضی نظام کا حصہ تھیں کیونکہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کا مینڈیٹ اتنا وسیع نہیں ہے کہ وہ فوجی آپریشن کے دوران پکڑے گئے دہشتگردوں کے مقدمات چلا سکیں یا ملک کے دیگر حصوں میں دہشتگردی کرنے والے کسی بھی شخص کا ملک کے دیگر شہروں میں موجود عدالتوں میں مقدمات چلا سکیں۔اس طرح ایسے دہشتگرددوں کی فہرست ہزاروں میں بتائی جاتی ہے جو کہ کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیے جا سکے اور مسلسل سیکورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اس ضمن میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتیں بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے ٹکرائو کی حیثیت رکھتی ہیں اس ضمن میں عدالتوں کے کئی فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تاہم عام شکایت یہی تھی کہ ملزموں کو اپنی پسند کے وکیل کرنے کی اجازت نہیں اور ان کے خلاف کیا الزمات ہیں وہ بھی نہیں بتائے جاتے تاہم پیپلز پارٹی نے اس ضمن میں اس بات کو منوالیا ہے کہ آئیندہ ملزمان کو جس الزام کے تحت گرفتار کیا جائے ان پر لگائے گئے الزامات سے آگاہ کیا جائے گا۔2015ء میں شروع کی جانے والی فوجی عدالتوں نے دو سال کے دوران صرف274افراد کو سزائیں دیں جس میں 161میں سے صرف 12افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ 113افراد کو عمر قید کی سزائیں سنائیں گیئں اس طرح ایسا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ فوجی عدالتوں سے دی گئیں سزائیں ملک میں انتہا پسندی کے خلاف دوسرے لوگوں کیلئے عبرت کا باعث بنی ہوں۔آج بھی کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا مخصوص مدت کیلئے قیام کا فیصلہ حکومت کا درست عمل ہے لیکن کیا اراکین پارلیمنٹ انصاف کے موجودہ نظام میں آئیندہ دو سالوں میں کسی قسم کی اصلاحات کا پیکج لے کر آئیں گے اس بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں گزشتہ دو سالوں کا جو وقت ضائع کیا گیا اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ شکوک و شبہات یقینی ہیں کہ حکومت شاید اس سلسلہ میں مخلص نہیں ہے۔موجودہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اس بل کو پاس کراسکے جبکہ اس ضمن میں پیپلز پارٹی پہلے بھی ان عدالتوں کے خلاف تھی تاہم یکدم پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی پاکستان آمد کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حرام بل کو حلال بنانے کیلئے اپنی رضا مندی ظاہر کردی ہے اور اس کے حق میں ووٹ دیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت فوجی عدالتوں کو مزید توسیع کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں انصاف کی فراہمی سے متعلق کوئی بل لے کر آتی اور اس پر حکمران جماعت سے بات کرتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ٹوپی ڈرامہ تھا اور اس ضمن میں کسی نے بھی کسی قسم کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ان کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا خرابیاں ہیں کہ وہ دہشتگردی کے مقدمات کو اپنی عدالتوں میں نہیں چلا سکتے۔فوجی عدالتوں کا قیام دراصل کسی بھی جمہوری نظام کیلئے شرم کا باعث ہے لیکن پارلیمنٹ میں موجود کسی پارٹی کو اس بارے میں شرم نہیں آتی کہ وہ اپنی ناکامی کا اعتزاف کرتے ہوئے قوم کو بتائیں کہ وہ نااہل ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے کہ ملک میں عدالتی نظام کے تحت طے شدہ اصولوں کے تحت انصاف نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ عوام بھی انصاف کے حصول کیلئے فوجی عدالتوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔لیکن اگر فوجی عدالتیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر عوام کہاں دیکھیں گے پاکستان میں جس طرح فوج سیاست میں حصہ لے رہی ہے وہ عمل درست نہیں۔
ملک کو چلانا سیاستدانوں کا کام ہے لیکن درپردہ جو کام ہو رہا ہے اس سے سب واقف ہیں کیونکہ ان عدالتوں کے قیام کا اصل مطالبہ سیاستدانوں کا نہیں بلکہ فوج کا ہے اور ان کے ہی پریشر میں آ کر دوبارہ سے اس آئینی ترامیم کے ذریعہ یہ حلالہ کرایا گیا ہے۔پاکستان میں بدقسمتی سے آئین واقعی ایک کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے جو چاہتا ہے اس کو اپنے جانب موڑ لیتا ہے پاکستانی افواج نے ماضی میں بے انتہا غلطیاں کیں مگر اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے وہی عمل بار بار دوہرایا جا رہا ہے۔کوئی نہیں کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے کہ ہاں ہم سے غلطیاں ہوئیں تھیں پاکستان میں مسئلہ اصل گورنرنس کا ہے کسی بھی مقدمہ کا انحصار تحقیقات اور پراسیکوشن پر ہوتا ہے اور پولیس میں شواہد جمع کرنے کی صلاحیت انتہائی کمزور ہے اور کمزور مقدمات جب عدالتوں سے آتے ہیں تو اس کی وجہ سے ملزم بری ہو جاتے ہیں اور وہ کیفرکردار تک نہیں پہنچتے جبکہ جہاں تعلق انتہا پسندی کا ہو تو اس میں جج وکیل گواہ سب ہی ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شناخت مخفی نہیں رکھی جاتی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں جو دوسرے قوانین موجود ہیں جو کہ سیکورٹی اداروں کو تفتیش اور پراسیکوشن کیلئے بے پناہ اختیارات دیتے ہیں جن کے ذریعہ حکومت عام عدالتوں کے ذریعہ وہ مقاصد حاصل کر سکتی تھی دو سال پہلے فوجی عدالتیں جس مقاصد کیلئے بنی وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جبکہ ان کی شفافیت پر ہر جگہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ ایسے مجرموں کو بھی سزائیں دی گئیں جن کے مقدمات انتہا پسندی سے متعلق نہیں تھے۔پاکستان میں پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کو اس قابل بنانا ضروری ہے کہ وہ تیزی اور جدید طریقوں سے انتہا پسندی سے منسلک مقدمات کو صیح طور پر تفتیش کر سکیں۔ہمارے پارلیمنٹرین کو چاہیے کہ وہ نظام میں تبدیلی کیلئے کام کریں تاکہ عوام کو بھی جمہوریت پر اعتماد ہو لیکن ہماری پاک افواج کی پالیساں اس بات کی شاید اجازت نہیں دیتیں کہ سیاستدان اس طرح کریں اس لیے ہماری فوج کو چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں انصاف کے نظام کا مطالعہ کریں اور تمام کام اپنے ہاتھوں میں لینے کے بجائے یہ کام سویلین حکومت سے لیں کیونکہ اگر فوج پیج کے دوسرے جانب ہو گی تو سیاستدانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے متحمل ہو سکیں اور ایسا نظام تشکیل دے سکیں جو کہ پاکستان میں رہنے والے ہر خاصل و عام کیلئے بلا امتیاز و تفریق انصاف کے تقاضے پورے کر سکے۔