فلپائن کی نائب صدر سارہ ڈوٹیرٹے اور صدر فرڈیننڈ مارکوس جونیئر کے درمیان سیاسی کشیدگی نئے سطح پر پہنچ گئی ہے، جب ڈوٹیرٹے نے عوامی طور پر صدر کو قتل کرنے کی دھمکی دی، اگر انہیں مار دیا جائے تو۔ یہ بیان ایک لائیو اسٹریمنگ کے دوران دیا گیا تھا، جس کے بعد فلپائن حکومت نے صدر مارکوس کے تحفظ کے لیے فوری طور پر سیکیورٹی اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں، اور اب اس دھمکی کو صدر کے خلاف “فعال خطرہ” کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
ڈوٹیرٹے کی دھمکی: سیاسی تقسیم میں اضافہ
ہفتے کے روز ایک جارحانہ فیس بک لائیو سیشن کے دوران، نائب صدر ڈوٹیرٹے، جو اب صدر مارکوس سے خود کو دور کر چکی ہیں، نے اپنی حفاظت کے بارے میں ایک تشویشناک بیان دیا۔ اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈوٹیرٹے نے کہا، “میری حفاظت کی فکر نہ کریں۔ میں نے ایک شخص سے بات کی اور کہا، اگر مجھے مارا جائے تو، بی بی ایم [مارکوس]، [پہلی خاتون] لیزا ارانیٹا، اور [اسپیکر] مارٹن روموالڈیز کو مار دینا۔ کوئی مذاق نہیں، کوئی مذاق نہیں۔”
ڈوٹیرٹے کی یہ بے باک اور گالیوں سے بھری باتیں اس تنازعے کے تناظر میں کی گئیں جس میں ان کے دفتر پر فنڈز کے غلط استعمال کا الزام تھا، اور اس معاملے کی وجہ سے ان کے چیف آف اسٹاف کو گرفتار کیا گیا تھا۔ نائب صدر نے اپنی جان کو درپیش کسی فوری خطرے کا ذکر نہیں کیا، لیکن اپنی باتیں صدر اور اہم سیاسی شخصیات کے حوالے سے کیں، جس سے حکومتی خاندانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کا اشارہ ملتا ہے۔
صدر کی سیکیورٹی فورسز کا “فعال خطرہ” پر ردعمل
ڈوٹیرٹے کے اس بیان کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، فلپائن حکومت نے فوری طور پر صدر مارکوس کے ارد گرد سیکیورٹی کے انتظامات کو بڑھا دیا ہے۔ ایک سرکاری بیان میں، پریسیڈنشل کمیونیکیشنز آفس نے ڈوٹیرٹے کے بیانات کی سنگینی کا اعتراف کیا اور اس معاملے کو پریسیڈنشل سیکیورٹی کمانڈ کے حوالے کیا، جو صدر کی حفاظت کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی فورس ہے۔
بیان میں کہا گیا، “صدر کی زندگی کو درپیش کوئی بھی خطرہ ہمیشہ سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے،” اور یہ بھی کہا گیا کہ ڈوٹیرٹے کی دھمکی، جو اتنی کھلی اور واضح طور پر دی گئی تھی، ایک اہم قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ ایگزیکٹو سیکریٹری لوکاس برسامین نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس خطرے کو ترجیحی بنیادوں پر لیا جا رہا ہے اور سیکیورٹی ادارے فوری اقدامات کر رہے ہیں۔
مارکوس-ڈوٹیرٹے اتحاد میں دراڑیں
یہ غیر معمولی بیانات اس بات کا نتیجہ سمجھے جا رہے ہیں کہ ڈوٹیرٹے اور مارکوس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے سیاسی شراکت داری کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جو 2022 کے انتخابات میں ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ تھی۔ ڈوٹیرٹے، جو سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی بیٹی ہیں، نے مارکوس کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں، لیکن ان کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ ماہ میں خاصے خراب ہو چکے ہیں۔
جون میں، ڈوٹیرٹے نے مارکوس کی کابینہ سے تعلیم کے وزیر کے طور پر استعفیٰ دے دیا، جو ان کی سیاسی شراکت داری میں دراڑ کی علامت تھا۔ اس کے بعد سے، انہوں نے مارکوس کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے تعلقات کو “زہریلا” قرار دیا اور کہا کہ وہ کبھی کبھار مارکوس سے بدلہ لینے کی خیالات سوچتی ہیں۔ ڈوٹیرٹے نے یہاں تک دھمکی دی تھی کہ وہ مارکوس کے مرحوم والد، فرڈیننڈ مارکوس سینئر، جو سابق آمر تھے، کی باقیات کی بے حرمتی کریں گی اور انہیں سمندر میں پھینک دیں گی۔
کشیدگی میں اضافہ اور آئندہ انتخابات پر اثرات
ڈوٹیرٹے اور مارکوس کے درمیان عوامی تنازعہ فلپائن کے مڈ ٹرم انتخابات سے صرف چند ماہ پہلے سامنے آیا ہے، جو مئی میں ہونے والے ہیں اور جن میں ایوان نمائندگان کے نئے ارکان، سینیٹ کے نصف اراکین، اور مقامی عہدیداروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ یہ انتخابات مارکوس کی سیاسی طاقت کا امتحان ہوں گے اور ملک کے سیاسی منظرنامے کو دوبارہ ترتیب دے سکتے ہیں۔
کابینہ سے استعفیٰ دینے کے باوجود، ڈوٹیرٹے ابھی بھی صدر مارکوس کی آئینی جانشین ہیں، اس لیے ان کے بیانات اور اقدامات خاص اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ فلپائن انتخابات کے موسم میں داخل ہو رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات نہ صرف ان کے اتحاد کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں بلکہ انتخابی نتائج پر بھی سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
ملک میں بے چینی کی صورتحال
جیسے جیسے سیاسی ڈرامہ بڑھتا جا رہا ہے، فلپائن کا مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے، کیونکہ ڈوٹیرٹے کی جارحانہ زبان اور دونوں خاندانوں کے درمیان جاری طاقت کا کشمکش ملک کے موجودہ انتظامیہ کی استحکام پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ اگرچہ مارکوس کی سلامتی کے لیے فوری طور پر سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں، لیکن نائب صدر اور صدر کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کا سیاسی منظرنامہ مزید متنازعہ ہونے والا ہے۔