فروغ نسیم کا بطور وفاقی وزیر قانون استعفیٰ منظور، نوٹی فکیشن جاری

فروغ نسیم کا بطور وفاقی وزیر قانون استعفیٰ منظور، نوٹی فکیشن جاری


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد کابینہ ڈویژن نے فروغ نسیم کا بطور وزیر قانون و انصاف کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد نوٹی فکیشن جاری ہوگیا۔

واضح رہے کہ نوٹی فکیشن پر استعفے کی منظوری کی تاریخ 26 نومبر درج تھی۔

کابینہ ڈویژن کے نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر فروغ نسیم کا استعفیٰ منظور کیا۔

خیال رہے کہ فروغ نسیم کے مستعفی ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے کابینہ کی تعداد 49 سے کم ہوکر 48 رہ گئی۔

علاوہ ازیں وفاقی وزرا 25 سے کم ہوکر 24 رہ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ فروغ نسیم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سپریم کورٹ میں مدت ملازمت سے متعلق کیس کی پیروی کرنے کے لیے گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ‘وزیرقانون صاحب نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ اس لیے دیا ہے کہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے اور حکومت کا موقف کو واضح کرنے کے لیے رضاکارانہ استعفیٰ دیا ہے تاکہ اٹارنی جنرل کی معاونت کریں گے’۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا تھا کہ ‘جب وہ معاونت پوری ہوجاتی ہے تو وزیراعظم کی منظوری سے واپس کابینہ میں شامل ہوٓسکتے ہیں’۔

خیال رہے کہ فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے بعد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں استعفیٰ پیش کیا گیا۔

گزشتہ روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن 27 نومبر (آج) تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیا تھا۔

تاہم آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق سماعت جارہی ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے وکیل ریاض حنیف راہی کے توسط سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر ہی درخواست گزار جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرر کا اختیار نہیں توسیع کا ہے، یہاں سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرر کیا جارہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کب ریٹائر ہورہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہورہے ہیں، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ آرمی چیف کی اس وقت عمر کیا ہے۔

عدالت میں جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے، کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئیں، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن اپلائی کیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنارہی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں