ع کردی، انہوں نے سوال کیا کہ عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ گواہ کے دستخط اور انیشلز اصلی ہیں؟
جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالت کو فیصلہ یا ریمارکس دینے سے نہیں روک سکتے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ تو ہمیں وقت پر فیصلہ بھی نہیں مہیا کرتے۔
جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ سینیئر وکیل ہیں، آپ کے رویے پر افسوس ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ اور کچھ کہنا ہے تو آپ کہہ دیں، سماعت شروع کریں، اس پر جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ درست کہہ رہے، آپ جرح شروع کریں۔
خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ جس فارم بی کا آپ نے بیان میں ذکر کیا آپ نے خود تیار کیا؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سال 2018، 2020 اور 2021 کے فارم بی میں نے تیار نہیں کیے۔
خواجہ حارث کے سوال پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا تو خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں تو عدالت وقت ہی نہیں دیتی، جو الیکشن کمیشن کے وکیل کہنا چاہتے گواہ وہی کہہ رہا۔
جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی کے دیگر وکلا سے مکالمہ کیا کہ آج میں نے دیگر وکلا کے خلاف ایکشن لیا ہے، جو کہنا ہے عدالت کو کہیں، دورانِ جرح نہ بولیں۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ صفحہ ایک سے لے کر 44 تک منسلک کئے گئے دستاویزات پر میرے دستخط نہیں، ان 44 صفحات میں پہلے 4 تصدیق شدہ ہیں باقی صفحات غیر تصدیق شدہ ہیں۔
خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ کیا توشہ خانہ کے کسی تحائف کی جانچ پڑتال آپ کی موجودگی میں ہوئیں؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میری موجودگی میں توشہ خانہ کے تحائف کی جانچ پڑتال نہیں ہوئیں۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ توشہ خانہ کے تحائف کے ماہر ہیں؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں توشہ خانہ کے تحائف کی جانچ پڑتال کرنے کا ماہر نہیں۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے بیان دیا کہ 19-2018 میں توشہ خانہ کےتحائف کی قیمت 107 ملین روپے تھی، آپ نے کسی سے جانچ پڑتال کروائی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ توشہ خانہ کے حوالے سے کسی سے معاونت حاصل نہیں کی۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے تحائف کے حوالے سے شکایت دائر کرنے سے قبل کسی سے کوئی شہادت لی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت دائر کرنے سے قبل تحائف کے حوالے سے میں نے کسی سے کوئی شہادت نہیں لی، الیکشن کمیشن میں ہونی والی کارروائی کا میں حصہ نہیں تھا، میں نے اپنے شکایت میں کسی گواہ کا ذکر نہیں کیا جس نے تحائف کی فہرست تیار کی تھی، میں نے کسی ایسے پرائیویٹ گواہ کا اپنی شکایت میں ذکر نہیں کیا جس نے توشہ خانہ تحائف کی مالیت کا تعین کیا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اس سے متعلق کسی گواہ سے رابطہ بھی نہیں کیا، میں نے خود بھی کسی تحفے کی مالیت کا تعین نہیں کروایا، میں نے توشہ خانہ تحائف کی فہرست میں شامل کسی تحفے کی مالیت کا تعین کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، توشہ خانہ تحائف کا جو ریکارڈ میں نے پیش کیا میں اس کی مالیت کا تعین کرنے کا خود بھی ماہر نہیں ہوں۔
اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ کیا اس کیس میں تحائف کی مالیت سے متعلق فرد جرم عائد ہوا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ان کے بیان سے متعلق پوچھ رہا ہوں، اس گواہ نے 107 ملین کا بیان دے رکھا ہے میرا سوال ہے اس سے متعلق کوئی گواہ ہے؟ وقاص ملک نے جواب دیا کہ اس سے متعلق گواہ نہیں ہے۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ شکایت دائر کرنے سے قبل کیا بینک اسٹیٹمنٹ دیکھی تھی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں نے شکایت دائر کرنے سے قبل چیرمین پی ٹی آئی کی بینک دیکھی تھی، بینک اسٹیٹمنٹس کمپیوٹر سے آٹومیٹکلی نکلتی ہیں، تصدیق کی ضرورت نہیں پڑی۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس دستاویز سے نہیں معلوم ہورہا کہ بنک اسٹیٹمننٹ کپمیوٹر سے نکالا گیا، گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں ماہر نہیں ہوں، کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کمپیوٹر سے نکالا یا نہیں۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا اسٹیٹ بینک سے بینک اسٹیٹمنٹ منگواتے وقت آپ موجود تھے؟ وقاص ملک نے جواب دیا کہ جب بینک اسٹیٹمنٹ آئی تو میں موجود نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے بینک اسٹیٹمنٹ منگوائی۔
وکیل الیکشن کمیشن سعدحسن نے کہا کہ گواہ وقاص ملک توشہ خانہ کا ماہر نہیں ہے، صرف شکایت دائر کی۔
اس دوران پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے دورانِ سماعت بار بار جملے بولنے پر جج ہمایوں دلاور نے اظہار برہم کیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ بیٹھ جائیں، آپ کو اس بار کہہ رہاہوں بیٹھ جائیں، جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں بیٹھ رہاہوں لیکن آپ میری عزت مجروح نہ کریں۔
وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے پوچھا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے بینک الفلاح اکائونٹ کی بینک اسٹیٹمنٹ آپ کی موجودگی میں تیار کی گئی، جس پر گواہ وقاص ملک نے کہا کہ درست ہے کہ بینک الفلاح کی بینک اسٹیٹمنٹ میری موجودگی میں تیار نہیں کی گئی۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا کمپلینٹ فائل کرنے سے پہلے آپ نے بینک الفلاح کی بینک اسٹیٹمنٹ دیکھی تھی، کیا آپ نے بینک اسٹیٹمنٹ کی سرٹیفائیڈ کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ بینک اسٹیٹمنٹ کی کاپی کمپیوٹر جنریٹڈ ہوتی ہے اور عام طور پر یہ سرٹیفائیڈ نہیں ہوتی ، یہ درست ہے کہ دستاویز پر کسی بینکر کی جانب سے دستخط نہیں کیے گئے ۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ بینک اسٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل کی۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے جب بینک اسٹیٹمنٹ کے لیے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا کیا آپ اس میں شامل تھے، اس پر گواہ نے کہا کہ جب خط لکھا گیا میں اس میں شامل نہیں تھا، بینک اسٹیٹمنٹ میں نے وصول نہیں کی، میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ بینک نے کب کمپیوٹر جنریٹڈ اسٹیٹمنٹ جاری کی ۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ توشہ خانہ سے تحفہ لیا جاتا ہے تو اس کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے ۔
الیکش کمیشن کے وکیل نے کہا کہ گواہ توشہ خانہ کے ماہر نہیں ہیں اس لیے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے، گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے نہ کابینہ ڈویژن سے۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کا توشہ خانہ کی تحائف کی ایولیو ایشن سے متعلق ڈاکومنٹ میں نے نہیں پڑھا، یہ درست ہے دستاویز میں لکھا ہوا ہے کہ جو تحائف ایک خاص حد سے کم کے ہوں انھیں تحفہ وصول کرنے والا رکھ سکتا ہے، اگر ایک خاص حد سے زیادہ مالیت کا تحفہ ہو تو اسے قمیت کی مخصوص مالیت جمع کروا کر رکھا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تحفہ کی ایویلیو ایشن کی بنیاد پر رقم جمع کروانا ہوتی ہے، میرے بیان کے مطابق 2 کروڑ 15 لاکھ سے زائد رقم ملزم نے تحائف رکھنے کے لیے قومی خزانے میں جمع کروائی، شکایت کے ساتھ لگائے گئے اثاثہ جات اور انکم ٹیکس کے دستاویزات میں نے پڑھے تھے ۔
گواہ نے کہا کہ بینک الفلاح کے اکائونٹ کی بینک اسٹیٹمنٹ بھی میں نے دیکھی تھی، ملزم کا موقف تھا کہ تحائف جون 2019 سے پہلے بیچ دیے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا دیکھا گیا کہ تحائف کی فروخت سے جو رقم آئی اسے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا گیا یا نہیں، گواہ نے کہا کہ 5 کروڑ 80 لاکھ کی رقم 2018-19 کے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کی گئی تھی، اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ توشہ خانہ کے تحائف سے آنے والی رقم ہے۔
عمران خان کے وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے جاننے کی کوشش کی کہ 5 کروڑ 80 لاکھ کس چیز کے ملے تھے اس پر گواہ نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ رقم بینک الفلاح کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی، میرے پاس اتھارٹی نہیں تھی کہ میں معلوم کرسکتا کہ رقم کہان سے آئی تھی۔
وکیل نے پوچھا کہ کیا الیکش کمیشن کے پاس بھی دستاویزات منگوانے کی اتھارٹی نہیں تھی۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ 2 کروڑ 15 لاکھ روپے جمع کرائے گئے 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کے تحائف بیچے گئے اسی طرح 3 کروڑ 65 لاکھ کا منافع ہوا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا کمپلینٹ فائل کرنے سے پہلے آپ کے نوٹس میں آیا کہ 3 کروڑ 60 لاکھ بطور دوسرے ذرائع سے آمدن ظاہر کیے گئے۔
گواہ نے کہا کہ شکایت فائل کرنے سے پہلے یہ میرے نوٹس میں نہیں آیا، یہ درست ہے کہ ملزم نے منافع 90 لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے جرح کی جارہی ہے جس کے گواہ ایکسپرٹ نہیں، اور نہ ہی گوہ ٹیکس ریٹرن کے جواب دینے کے لیے تیار ہیں، گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے، معاملہ جھوٹا ڈیکلریشن دینے کا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن سے الیکشن کمیشن کے گواہ کا تعلق کیا ہے، منافع اور ٹیکس دیکھنا ٹیکس افسر کا کام ہے، گواہ کا تعلق ایف بی آر سے نہیں ہے۔
گواہ وقاص ملک نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ 58 ملین روپے کی رقم نجی بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی، میرے پاس اتھارٹی نہیں کہ معلوم کروں کہ رقم کہاں سے آئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے، ٹیکس ریٹرن پر جواب دینے کو تیار نہیں، ٹیکس ریٹرن سے الیکشن کمیشن کے گواہ کا تعلق کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ منافع اور ٹیکس دیکھنا ٹیکس افسر کا کام ہے، گواہ کا تعلق ایف بی ار سے نہیں ہے، گواہ سے ٹیکس ریکارڈ کا حساب کتاب پوچھنا غیراہم ہے، دستاویزات موجود ہیں۔
بعدازاں جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا اس کے خلاف کارروائی کروں گا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وکلا کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اس سے قبل میں خصوصی عدالت کا جج تھا ایک سال میں 13 قتل کے کیسز کا فیصلہ کیا، آپ کوئی ایک دن بتائیں جس دن آپ نے اپنے انداز میں کلاس نہ لی ہو، آپ سینیئر کونسل ہیں ، لیکن آپ پنچنگ انداز میں بات کرتے ہیں۔
جج نے کہا کہ ’خواجہ حارث صرف آپ کی وجہ سے میں تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکشن نہیں لوں گا، آپ نرم مزاجی سے جیسے کلائنٹ کو ہینڈل کرتے ہیں ویسے ہی عدالت کو بھی ٹھنڈا کر رہے ہیں‘۔
عدالت نے خواجہ حارث کی استدعا پر آج ہونے والے واقعہ کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل 10:30 تک ملتوی کردی۔ الیکشن کمیشن کے گواہ وقاص ملک پر جرح کل بھی جارہ رہے گی۔