عوام کے مفاد میں حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑے، ڈاکٹر ظفر مرزا


وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت بھرپور جامع حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے اور عوام کے مفاد میں ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑے۔

عالمی ادارہ صحت کے خط کے حوالے سے ایک بیان میں ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ صبح وزارت کی سطح پر صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور صوبوں کے ساتھ ملکر فیصلہ سازی کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت بھرپور جامع حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ 22 ممالک پر مشتمل عالمی ادارہ صحت کے بحیرہ روم کے خطے میں سب سے بڑا ملک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کم آمدنی کا حامل ملک ہے جہاں دو تہائی آبادی روزانہ آمدنی پر گزر بسر کرتی ہے، اسی سلسلے میں ہم نے کورونا کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کے بہترین مفاد میں فیصلے کیے۔

ظفر مرزا نے کہا کہ ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑے ہیں اور زندگیوں اور روزگار دونوں میں توازن برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دانستہ طور پر ملک میں آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی اور دکانوں مساجد مار کیٹوں پبلک ٹرانسپورٹ پر ایس او پیز پر زور دیا جبکہ ماسک پہننے کو پورے ملک میں لازمی قرار دیا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نے انتہائی فعال ٹریسنگ ٹیسٹنگ قرنطینہ پالیسی متعارف کرائی جس کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ والے علاقوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔

ظفر مرزا کے مطابق اس وقت ملک میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے سات سو مختلف مقامات ہیں اور کورونا کے حوالے سے ہماری حکمت عملی کا ایک پہلو اپنے صحت کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسیاں تحقیق اور تکنیکی اعتبار سے حاصل کیے گئے تجزیات کی بنیاد اور معیشیت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت اقوام متحدہ کے صحت عامہ کا ایک تکنیکی ادراہ ہے اور اس وبا کی روک تھام سمیت ہم صحت کے حوالے سے ان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے کام کے معترف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کا کام ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کو تجاویز پیش کرے لیکن یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ حکومتوں کو فیصلہ سازی کے لیے تمام بڑے معاملات سامنے رکھ کر ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو لکھے گئے مراسلے میں تجویز دی گئی تھی کہ ملک کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ’وقفے وقفے سے لاک ڈاؤن‘ نافذ کرے۔

عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مکمل نرمی سے گریز کرے کیونکہ وہ احتیاطی تدابیر سے متعلق 6 شرائط (نکات) میں سے کسی ایک پر بھی پورا نہیں اترتا۔

7 جون کو لکھے گئے مراسلے میں پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کی کنٹری ہیڈ ڈاکٹر پالیتھا ماہی پالا نے کہا کہ کورونا وائرس ملک کے تقریباً تمام اضلاع میں پھیل چکا ہے اور بڑے شہروں میں کیسز کی اکثریت ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہانگ کانگ کے اسٹڈی گروپ نے کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی پر پاکستان کو ایشیا اور بحرالکاہل کا چوتھا خطرناک ملک قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس متاثر ہو چکے ہیں اور متاثرین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

ملک میں آج 10 جون کی سہ پہر تک ایک لاکھ 13ہزار سے زائد وائرس سے متاثر جبکہ 2ہزار 255 وائرس سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں